Book Name:Shan-e-Sahaba

اِس لیے بارگاہِ خُداوَندی میں اُن بزرگوں کو جو قُرب وتَقَرُّب حاصل ہے،  وہ دوسرے اَوْلِیا ءُ اللہ (رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہم اجمعین) کو حاصل نہیں۔ اگرچہ صَحابۂ کِرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے بہت کم کرامتیں صادِر (جاری) ہوئیں،   لیکن پھر بھی صَحابۂ کِرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا دَرَجۂ وِلایت دوسرے اَولیائے کرام (رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہم اجمعین)  سے بَہُت  زیادہ اَفْضل و اَعْلیٰ اوربُلند وبالا ہے۔  ( کرامات ِصحابہ،   ص۵۳)  

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!معلوم ہوا  صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی شان  ایسی بے مثال ہےکہ کوئی بھی ان کے مَقام و مرتبےتک  ہر گزنہیں پہنچ  سکتا۔ اِنہی مُبارَک ہستیوں نے دین کی سَر بُلندی کیلئے اپنی  جانی ومالی قُربانیاں پیش کیں،   دِینِ اسلام کی تَرویج واِشاعت کیلئے گھربار چھوڑ کرسفر کی مُشکلات میں کبھی صَبرکادامن  نہ چھوڑا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ہم مُسلمان ہیں،  ہمارے ہاتھوں میں قرآنِ کریم کی صُورت میں  اَحْکامِ اِلٰہی اور اَحادیثِ کریمہ کی صُورت میں فرامینِ نَبَوی بھی اِنہی مُقدَّس ہستیوں کی شب وروز کی محنتوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم  اپنے  ان  احسان کرنے والوں کی مَحَبَّت و عظمت کو اپنے دل میں بسائیں،  ان کے نَقْشِ قدم پر چلتے ہوئے  اپنی زِنْدگی بسر کریں ،  ان کی تھوڑی سی بے اَدَبی وگُستاخی اورطَعْن وتَشْنِیْع سے بھی باز رہیں اور ہمیشہ ان کا ذِکْرِخَیْر کرتی رہیں ۔ عُلَما فرماتے ہیں: ان  (صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان) کا جب (بھی)  ذِکْر کِیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔  (بہارِ شریعت: ۱  /   ۲۵۲) یادرکھئے!نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رِضا وخُوشنودی حاصل کرنے کیلئےصرف آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مَحَبَّت کا دعویٰ  ہی کافی نہیں بلکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کااَدب واِحْترام بھی ضروری ہے ورنہ ان حضرات  کی بُرائی کرنا نبیِّ پاک  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضی کا سبب  بن سکتاہے ۔ چنانچہ 

حضرت علاَّمہ یُوسف بن اِسماعیل نَبْہانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ابُوعلی قحطان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی ایک حکایت بیان فرماتے ہیں ،   میں نے خَواب میں دیکھا کہ میں کَرْخْ کی جامع مسجدشَرقیہ میں داخل ہوا ،   میں نے سَیِّدُالْمُرْسَلِیْن،  جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا،  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ دوآدمی اور بھی تھے،  جنہیں میں نہیں جانتا تھا،   میں نے حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی خِدْمَت میں سلام عرض کیا ،  مگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کوئی جواب نہ دیا،   میں نے عرض کی: یارسُولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!میں آپ پر شب و روز اتنی اتنی مرتبہ دُرُود وسلام بھیجتاہوں اور آپ نے مجھے جوابِ سلام سے مَحروم فرمادیا؟ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تم مجھ پر تو دُرُود بھیجتے ہو اور میرے صحابہ پر طَعْن وتَشْنیع کرتے ہو۔ میں نے عرض کی: یارَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں آپ کے دَستِ اَقْدس پر توبہ کرتا ہوں،  آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ پھر سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (سلام کے جواب میں ارشاد) فرمایا: وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ۔   (سعادۃ الدارین،   الباب الرابع فیماورد من لطائف المرائیالخ ،   اللطیفۃ الخامسۃ والعشرون بعد المائۃ،  ص ۱۶۳)