Book Name:Shan-e-Sahaba

دورانِ بیان موبائل کے غیر ضروری استعمال سے بچوں گی،   نہ بیان ریکارڈ کروں گی نہ ہی اور کسی قسم کی آواز  کہ  اِس کی اجازت نہیں ،  جو کچھ سنوں گی،   اسے سن   اور سمجھ   کر اس پہ عمل کرنے اور اسے بعد میں دوسروں تک پہنچا   کر نیکی کی دعوت عام کرنے کی سعادت حاصل کروں گی۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

صحابۂ کرام کا جذبۂ  اِیثار

مکتبۃ المدینہ کی 2جلدوں پر مشتمل کتاب"عیون الحکایات''جس میں نصیحت بھرے واقعات ہیں،  اس کی جلد اوّل،  صفحہ نمبر 73 پر حکایت نمبر 17 ہے:

حضرت سَیِّدُنا ابُو جَہْم بن حُذَیْفَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:  غزوۂ یَرمُوک کے دن میں اپنے چچا زاد بھائی کو تَلاش کر رہا تھا،   میرے پاس ایک بَر تن میں اِتنا پانی تھا کہ جو ایک شَخْص کو سیراب کردیتا۔  میں نے سوچا کہ اگراُن میں تھوڑی سی بھی جانباقی ہوگی تو میں اُنہیں یہ پانی پلاؤں گا اور اِس سے اُن کے چہرے کو صاف کروں گا۔ میں جُونہی اُن کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ خُون میں لَت پَت تھے،   میں نے اُن  سےپُوچھا :  کیا  میں آپ کو پانی پلاؤں؟  اُنہوں نے اِشارے سے کہا:  ہاں،  اِتنے میں اچانک کسی کے کَراہنے کی آواز آئی ۔ میرے چچا زاد بھائی نے کہا: یہ پانی اُن کے پاس لے جاؤ۔ میں نے دیکھا کہ وہ حضرت سَیِّدُنا عَمْر و بن عاصرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بھائی حضرت سَیِّدُنا ہِشام بن عاصرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔ میں ان کے پاس پَہُنْچا اور اُن سے کہا لیجئے !میں آپ کو پانی پِلاتا ہوں،  اتنے میں اُنہوں نے بھی ایک زَخْمی کو کَراہتے ہوئے سُنا اور اِشارے سے فرمایا  کہ یہ پانی اُن کے پاس لے جاؤ۔ میں اُن کے پاس پہنچا تو وہ جامِ شہادت نوش فرما چکے تھے۔ پھر میں واپس حضرت سَیِّدُنا  ہِشام بن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس آیا تو وہ بھی اپنے خالقِ حقیقیکی بارگاہ میں جا چکے تھے۔  پھر میں اپنے چچا زاد بھائی کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ بھی شہیدہو چکے ہیں۔   ([1])  

سُبْحٰنَ اللہ!صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی  شان وشوکت بھی کس قدر اَرْفَع و اَعْلیٰ تھی،  باوُجود یہ کہ زَخْموں سے بدن چُور چُور ہیں ،  پیاس کی شِدَّت بھی اپنے عُروج پر ہے،   مگر قُربان جائیے !اِن نُفُوسِ قُدْسِیَّہ کے جَذبۂ اِیثار پر!  اِس عالَم میں بھی دیگر صحابۂ کرام  عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی  تکالیف کا اِس قدر اِحساس تھا کہ اپنی پیاس کو قُربان کردیا ۔ ذرا غور کیجئے کہ ایسے ہوش اُڑا دینے والی حالت میں کہ جب  عقل بھی کام کرنا چھوڑ دیتی ہے اور ہر شَخْص کوصِرف اپنی ہی فکر ہوتی ہے،   مگر ان حضرات کواپنی جان  بچانے کی  بجائے دوسروں کی فِکْر ستا ئے جارہی ہے ۔ بِلا شُبہ یہ اُن کی عُمدہ تعلیم  و تَربِیَت،  بُلند پایہ ہمّت اور اللہ کریم اور اُس کے حبیب  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کامل مَحَبَّت کانتیجہ تھا،  اُن کی اِنہی اَعْلیٰ صِفات کی وجہ سے صَدیاں گُزرجانے کے باوُجود آج بھی رُشد و ہدایت کے



[1]    عیون الحکایات جلد1ص73