Book Name:Hasanain-e-Karimain ki Shan-o-Azmat

سےجہاں سُنّتوں بھرے بیانات اورمدنی مذاکروں کی لاکھوں لاکھ وی سی ڈیز(VCD s)  دُنیابھرمیں پہنچ رہی ہيں،  وہیں امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی کتابوں کااردو ترجمہ،اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ،  امیرِاہلسنت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اور اَلْمَدینۃُ الْعِلْمِیَہ کی کتابیں بھی شائع کرکے کثیرتعدادمیں عوام کےہاتھوں میں پہنچائی جارہی ہیں۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! جب صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نےسرکارصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے اَہْلِ بیت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین  اورپیارے نواسوں رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے بے انتِہامَحَبَّت کرتے دیکھا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت کی وجہ سے یہ حضرات بھی ان سے مَحَبَّت  وشَفْقَت سے پیش آتے اورآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کےبعدبھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہلِ بیتِ اطہار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین اور بالُخُصوص حَسَنَیْنِ کَرِیْمَیْن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کا بے حد خَیال رکھاکرتے،  چُنانچہ     

صدّیقِ اکبر کی اِمام ِحسن سے مَحَبَّت:

 حضرت سَیِّدُناابوبکرصدّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب مومنوں کے امیراور مسلمانوں کے خلیفہ مُنتَخَب ہُوئے تو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے تَعَلُّق کی وجہ سےآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اہلِ بیتِ اطہار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین کابہت خَیال رکھا کرتے اوراَہْلِ بیتِ اَطہار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ’’نبیِّ کریم،  رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکےرشتہ دارمُجھے اپنے  رشتہ داروں سے زیادہ  پیارے ہیں۔ ‘‘(بخاری،  کتاب المغازی،  باب حدیث بنی نضیر،  الحدیث: ۴۰۳۶،   ج۳،   ص۲۹)

فارُوقِ اعظم کی امامِ حُسین سے والِہانہ مَحَبَّت:

            حضرت سَیِّدُنا امامِ حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں:میں ایک دن اَمِیْرُالْمُومنین حضرت سَیِّدُنا عمر فارُوقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر گیا،مگر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ،   حضرت ا َمِیرِ مُعاوِیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ علیحدگی میں مصروفِ گفتگو تھے اور آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بیٹے حضرت عبدُ اللہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ دروازے پر کھڑے اِنتظار کر رہے تھے۔کچھ دیر انتظار کے بعد وہ واپس لوٹنے لگے تو ان کے ساتھ ہی میں بھی واپس لوٹ آیا۔بعد میں اَمِیْرُالْمُومنین حضرت سیِّدُنا عمر فارُوقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے میری  مُلاقات ہوئی تو میں نے عرض کی:’’اے اَمِیْرُالْمُومنین! میں آپ کے پاس آیا تھا،  مگر آپ حضرت اَمِیْرِ مُعاویہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ مَصْروفِ گفتگو تھے۔آپ کے بیٹے عبدُ اللہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے ( میں نے سوچا جب بیٹے کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے،مجھے کیسے ہوسکتی ہے؟)لہٰذا میں ان کے ساتھ ہی واپس چلا گیا۔‘‘تو اَمِیْرُالْمُومنین حضرت سَیِّدُنا فارُوْقِ اَعْظَم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا:اے میرے بیٹے حسین!میری اَوْلاد سے زِیادہ،آپ اس بات