Book Name:Aashiqoon Ka Hajj

دھوکے کا شکار ہوکر اَدا کی ہے۔اس  حکایت سے مزید یہ بھی معلوم ہواکہ  ہمارے بُزرْگارنِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کیسی مَدَنی سوچ رکھتے اور کس قَدَر عاجِزی کے خُوگر ہواکرتے تھے ۔ بعضوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ عام لوگوں سے تو جُھک جُھک کر ملتے اور اُن کیلئے بچھ بچھ جاتے ہیں مگر والِدَین ، بھائی بہنوں اور بال بچّوں کے ساتھ اُن کا رویّہ جارحانہ ،غیراَخْلاقی اور  بَسااَوقات سخت دل آزار ہوتا ہے ،ایساکیوں ؟اس لئے کہ عوام میں عُمدہ اَخلاق کا مُظاہرہ مَقبولیّتِ عامّہ کا باعِث بنتا ہے جبکہ گھر میں حُسنِ سُلوک کرنے سے عزّت و شُہرت ملنے کی خاص اُمّید نہیں ہوتی!اس لئے یہ لوگ عوام میں خُوب میٹھے میٹھے بنے رہتے ہیں! اِسی طرح  جواسلامی بہن بعض مُستَحَب کاموں کے لئے بڑھ چڑھ کرقُربانیاں پیش کر  تیں  مگر فرائض و واجبات کی اَدائیگی میں کوتاہیاں بر تتی ہیں مَثَلاً ماں باپ کی اِطاعت،بال بچّوں کی شریعت کے مطابِق تربیت نہیں کرتیں  اور خودفرض عُلُوم کے حُصُول میں غَفلت سے کام  لیتی ہیں اُن کیلئے بھی اِس حکایت میں عبرت کے نِہایت اَہَم مَدَنی پُھول ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جن نیک کاموں میں’’ شُہرت ملتی اور واہ واہ! ہوتی ہے ‘‘وہ دُشوار ہونے کے باوُجُود بآسانی سَر اَنجام پا جاتے ہیں کیوں کہ حُبِّ جاہ (یعنی شُہرت و عزَّت کی چاہَت) کےسبب ملنے والی لذّت بڑی سے بڑی مَشَقَّت آسان کر دیتی ہے۔ یادرکھئے!’’حُبِِّ جاہ‘‘ میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے ۔عبرت کیلئے دو فرامینِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سُن لیجئے:(۱)اللہ پاک  کی طاعت(یعنی عبادت) کو بندوں کی طرف سے کی جانے والی تعریف کی مَحَبَّت سے ملانے سے بچتے رہو،کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں (فردوس الاخبار ج۱ ص ۲۲۳ حدیث ۱۵۶۷ ) (2)دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے رَیوڑ میں اِتنی تَباہی نہیں مَچاتے جتنی تَباہی حُبِِّ مال وجاہ (یعنی مال و دولت اور عزّت و شہرت کی محبَّت) مُسلمان کے دِین میں مچاتی ہے۔ (ترمذی ج۴ ص۱۶۶حدیث ۲۳۸۳)(عاشقانِ رسول کی 130 حکایات، ص۱۰۳)