Book Name:Ashabe Khaf Ka Waqiya

عَزَّ  وَجَلَّ کی حمد و ثنا بجالائے کہ اس نے ایسی نشانی ظاہر فرمادی، جس سے موت کے بعد اُٹھنے کا یقین حاصل ہوتا ہے۔ حاکمِ شہرنے اپنے بادشاہ بَیْد رُوس کو اس واقعہ کی اطلاع دی،چُنانچہ بادشاہ بھی بقیہ معزز لوگوں اور سرداروں کو لے کر حاضر ہوا اور شکرِ الٰہی کا سجدہ بجا لایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کی۔اصحاب ِکہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے بادشاہ سے مُعانقہ(مُ۔عَانَ۔قَہ) کیا یعنی گلے مِلےاور فرمایا: ہم تمہیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے سپرد کرتے ہیں۔وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَا تُہُ،اللہ تعالیٰ تیری،تیرے مُلک کی حفاظت فرمائے اور جنّات و انسانوں کے شر سے بچائے۔بادشاہ کھڑا ہی تھا کہ وہ حضرات اپنی خواب گاہوں کی طرف واپس ہو کر مصروفِ خواب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دےدی،بادشاہ نے ایک درخت کی لکڑی کے صندوق میں ان کے جسموں کو محفوظ کیا اور اللہ تعالیٰ نے رُعب سے ان کی حفاظت فرمائی کہ کسی کی مجال نہیں کہ وہاں پہنچ سکے۔بادشاہ نے غار کے مُنہ پر مسجد بنانے کا حکم دِیا اور ایک خوشی کا دنمُعَیَّن(مخصوص)کردِیا کہ ہر سال لوگ عید کی طرح وہاں آیا کریں۔(1)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کردہ واقعے سے ہمیں3 مدنی پھول حاصل ہوئے:پہلا یہ کہ مرنے کے بعد زندہ ہو کر اُٹھنا حق ہے اور اصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا واقعہ اس کی نشانی اور دلیل ہے۔ دوسرا یہ کہ کراماتِ اَولیا حق ہیں،اصحاب کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نبی نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے ولی ہیں،ان کی کرامت یہ بیان ہوئی کہ غار میں 300 سال سے زیادہ عرصے تک سوتے رہے۔اتنا عرصہ بے غذا سونا اور فنا  نہ ہونا یقیناً ایک کرامت ہے۔یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ کرامت سوتے میں بھی ظاہر ہوسکتی ہے،اس کے لئے ولی کا جاگا ہوا ہونا ضروری نہیں جیسا کہ

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی تفسیرِ قرآن،بنام”صِراطُ الجِنان “میں ہے: کرامت ولی سے سوتے میں بھی ظاہر ہو سکتی ہے اور اسی طرح بعد ِموت بھی۔ان کے جسموں کو مٹی کا نہ

مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ

[1] صِراطُ الجِنان،پ۱۵،الکہف،تحت الآیۃ:۱۰۔۹،۵/۶۴۱،۵/۵۴۳،ماخوذاًبتغیر قلیل