Book Name:Aslaf e Karam ki Sharam o Haya kay Waqiyat

گواوربےحیا نہیں ہوتا۔ (1)ہمارے بزرگانِ دین کی شرم و  حیاکاعالم یہ تھا کہ فحش اور بُری باتوں سے نہ صرف خود بچتے تھے  بلکہ اپنے متعلقین کوفحش باتیں سننے سے بھی منع فرماتے تھے۔جیساکہ

    حضرت سیِّدُنا احمد بن یحییرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ'' ایک دن حضرت سیِّدُنا امام شافعی  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ قندیلوں کے بازار سے نکلے تو ہم آپ کے پیچھے  پیچھے چل پڑے دیکھا کہ ایک شخص کسی عالم کو بیہودہ باتیں کہہ رہا تھا، حضرت سیِّدُنا امام شافعی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اورارشاد فرمایا:'' فحش کلامی سننے سے اپنے کانوں کو پاک رکھو جیسے تم اپنی زبانوں کو بُرے کلام سے پاک رکھتے ہو کیونکہ (قصداََ) سننے والا کہنے والے کے ساتھ شریک ہوتا ہے اور بے وقوف آدمی ہی اپنے برتن( یعنی دماغ) میں سے سب سے بُری بات تمہارے برتنوں(یعنی دماغوں) میں ڈالنے کی حرص کرتا ہے۔ اگر بے و قوف کی بات اسی کی طرف لوٹا دی جائے تو  لوٹانے والا نیک بخت ہوتا ہے جس طرح کہ اس کا قائل بدبخت ہوتا ہے ۔(لباب الاحیا،ص ۲۹)

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت سے  معلوم ہوا کہ اگر کسی مجلس میں فحش اور بیہودہ گفتگو کیجارہی ہواور ہم  روكنے کی قدرت  بھی رکھتے ہوں تو انہیں  روکنا چاہیے،ورنہ کم از کم  دل ميں تو بُرا جانتے ہوئے وہاں سےدُور ہوجانا چاہیے ۔ بعض ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں کہ جو خود تو فحش گوئی  سے بچتے ہیں لیکن اگر کسی کو فحش گوئی اور بدکلامی کرتا دیکھیں تو اس کی فحش گوئی  اور بدکلامی سے  مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ بہت محظوظ اور لُطف اندوز  ہوتے ہیں اوران  کو بد کلامی  سے روکنے کے بجاۓ ان کی حوصلہ اَفزائی  کرتے ہوۓ اپنی آخرت کی تباہی کا سامان کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کے بارے میں

        نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَكافرمانِ عبرت نشان  سنئے:چار (4) طرح کے جہنَّمی کہ جو کھولتے پانی اور آگ کے مابَین(یعنی درمیان) بھاگتے پھرتے وَیل وثُبُور (ہلاکت) مانگتے ہوں گے۔ ان میں سے

مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ

[1]سنن الترمذی، کتاب البروالصلة، باب ماجاء فی اللعنة ،۳/ ۳۹۳، حدیث :۱۹۸۴