Book Name:Nekiyon kay Harees

اسباب وآلات مُہیا ہیں اورمَعَاذَاللہ نیکیاں کرنا بے حد دُشوار ہے  شایداسی وجہ سے مسلمان گناہوں  کے مریض ہوکر نیکیوں کے حریص نہ رہے ۔افسوس صدافسوس!ہم گناہ کرنے کے لئے تو بڑی سے بڑی مَشَقَّت بھی اُٹھا لیتے ہیں مگر جُونہی نیکی کا موقع ملتا ہےتونفس وشیطان    اپنے  جال میں بری طرح پھنسا لیتے ہیں اور معمولی سی نیکی بھی پہاڑ جیسی معلوم ہوتی ہے ۔ یادرکھئے !نیکی میں جتنی مَشَقَّت زیادہ ہوگی اللہ عَزَّ  وَجَلَّاپنی رحمت سے ثواب بھی اتنا ہی  زیادہ عطافرمائے گاجیساکہ منقول ہے:’’اَفْضَلُ الْعِبَادَاتِ اَحْمَزُھَا یعنی افضل عبادت وہ ہےجس میں زحمت(تکلیف)زِیادہ ہے۔‘‘(کشف الخفاء :۱/۱۴۱،الحدیث۴۵۹) ہمارے اسلاف کو نیکیاں کرتے وقت کیسی ہی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا  کبھی پیچھے نہ ہٹتے  چنانچہ ،

بارش میں طواف کی خواہش!

       سرکارِ اعلیٰ حَضْرت،امام اہلسنّت مولانا امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جب دوسری بار حج کے لیے تشریف لے گئے تو مکہ شریف پہنچتے ہی علیل(بیمار) ہوگئے، بسا اوقات بخار کی شدت ایسی  ہوتی کہ صحیح طریقے سےکھڑے بھی نہ ہوپاتے، ذی الحج کی تیرہویں (13 ہویں) تاریخ سے بخار شروع ہوا،کبھی بڑھتا اور کبھی گھٹتا،جبکہ محرم الحرام شریف تقریباً سارا ہی بخار میں گزرا (ملفوظات: ۱۸۸،۲۰۰، ۲۰۱) ایسے حالات میں شدت سے اس بات کا انتظار تھا کہ صحت کچھ اچھی ہوجائے  تو سُوئے مدینہ روضۂ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی حاضری کے لیے روانہ ہوا جائے، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اِرْشاد فرماتے ہیں: جب محرم کے آخری دنوں میں بِفَضْلِہٖ تَعَالٰی(یعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی عطا سے) صحت (اَچّھی)ہوئی تو وہاں ایک سُلطانی حمام ہے اُس میں نہاکر باہر نکلا تو اَبْر(یعنی بادل) دیکھا، حرم شریف پہنچتے پہنچتے برسنا شُروع ہوا۔ مجھے حدیث یا دآئی کہ جو مینہ(بارش ) بر ستے میں طواف کرے وہ رحمتِ الٰہی (عَزَّوَجَلَّ)میں تیرتا ہے ۔فوراً سنگِ اسود شریف کا بوسہ لے کر بارش ہی میں سات(7) پھیرے طواف کیا، تو پھر سے بخار ہو گیا۔(مکہ معظمہ کے ایک جید عالمِ دین )مولاناسیّداسمٰعیل رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:ایک ضعیف