Book Name:Nekiyon kay Harees

حدیث کے لئے آپ نے اپنے بدن کی یہ بے احتیاطی کی!میں نے کہا: حدیث ضعیف ہے مگر اُمید بِحَمْدِ اللہ تَعَالٰی قَوِی ہے۔یہ طواف بِحَمْدِ اللہ تَعَالٰی بہت مزے کا تھا (کیونکہ) بارش کے سبب طائفین(یعنی طواف کرنے  والوں) کی وہ کثرت نہ تھی(جو عام  دنوں میں ہوتی ہے )۔ (ملفوظات:ص:۲۰۹،بتغیر)

شرابِ محبت کچھ ایسی پِلا دے

کبھی بھی نشہ ہو نہ کم یا اِلٰہی

(وسائلِ بخشش،ص:109)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!غور کیجئےکہ ایک طرف ہمارے اَسلاف  کا یہ حال تھاکہ مہینہ بھر  بخار  میں رہنے کے باوجود بھی بارش میں طواف کرنے کی فضیلت پانے کے حریص تھے جبکہ ہماری حالت تو اس قدر ابتر ہے کہ ہلکا  پُھلکا سردرد،نزلہ زکام  اورمعمولی بیماریوں کے سبب نوافل کی سعادت پانا تو درکنارہم تومَعَاذَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّفرائض  تک چھوڑدیتے ہیں۔اگر ہم روزانہ فرائض کے ساتھ ساتھ  کچھ نہ کچھ نفل عبادات    کی بھی عادت بنائیں گے تو اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ  وَجَلَّ عبادت کا مزید شوق پیدا ہوگا ۔ 

       ہمارے بُزرگانِ دین کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ وہ روزانہ نیک اعمال کرنے کا ایک ہدف بنا لیاکرتے اور پھر اس پرعمل کی بھر پورکوشش  فرماتے اور ہدف مکمل کرلینے کے بعدبھی خود کو عبادت وریاضت میں ہی مشغول رکھتے۔ چنانچہ’’حَضْرت سَیِّدُنا عامر بن عبدِقیس رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اپنے زمانے کے عابدوں میں سب سے افضل تھے۔ اُنہوں نے اپنے اُوپر یہ بات لازم کرلی تھی کہ میں روزانہ ایک ہزار نوافل پڑھوں گا۔چُنانچہ وہ اِشراق سے لےکرعصر تک (دن کااکثر حصّہ )نوافل میں مشغول رہتے پھر جب  گھر آتے تو ان کی پنڈلیاں اور قدم سُوجے  ہوئےہوتے، ایسا لگتا جیسے ابھی پھٹ جائیں