Book Name:Allah walon kay Rozay

عامر بن عبدِ قَیْس رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  اپنی وفات کے وقت  رونے لگے۔ جب اُن سے رونے کا سبب پُوچھا گیا توارشادفرمایا :میں مَوت کے ڈر یا دُنیا کی مَحَبَّت میں نہیں رورہا ہوں بلکہ گرمیوں کے روزوں میں دوپہر کی پیاس اور سردیوں کی لمبی راتوں میں نفل نماز کی جدائی پر رورہا ہوں۔(1)

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سُنا آپ نے کہ اُن مُبارک ہستیوں کو شدید گرمی کے روزوں کی سخت پیاس اس قدر پسند تھی کہ اپنی مَوت کے وقت اس بات پر آنسو بہا رہے ہیں کہ مَوت کے بعد گرمی کے روزوں کی شِدّتِ پیاس کی لذّت کیسے نصیب ہوگی ،نماز و روزوں کی تو یہ حضرات اس قدر کثرت کِیا کرتے تھے کہ گویا اِس کے علاوہ اُنہیں اور کسی دُنیاوی چیز سے کوئی دلچسپی ہی نہ ہو جیساکہ

حضرت سیِّدُنا مُصْعَب بن ثابِت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  جو کہ بہت زیادہ متقی وعبادت گُزار تھے۔ روزانہ ایک ہزار (1000)نوافل پڑھاکرتے اور ہمیشہ روزہ رکھتے۔(2)

        حضرتِ سیِّدُناابراہیم بن اَدْہَم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فر ماتے ہیں کہ ایک عبادت گُزار شخص بیمار ہوگیاتو ہم اُس کی عیادت کے لئے اُس کے پاس گئے۔ وہ لمبی لمبی سانسیں لے کر افسوس کرنے لگا۔ میں نے اُس کو کہا:کس بات پر افسوس کر رہے ہو؟تو اُس نے بتایا:اُس رات پرجو میں نے سو کر گُزاری اور اُس دن پر جس دن میں نے روزہ نہ رکھا اور اُس گھڑی پر جس میں مَیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے ذکر سے غافل رہا۔(3)

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ذرا سوچئے کہ جنہیں اپنی زندگی میں نفل نمازوں یا نفل روزوں میں معمولی سی کوتاہی ہوجانے پر اپنی مَوت کے وقت اس قدر افسوس ہوتا تھا اُن کے بارے میں فرض نمازوں یا فرض روزوں میں سُستی کا تو تصوّر بھی نہیں کِیا جاسکتا ، ذرا غور کیجئے!! کہ ہم میں اور اُن اللہ  والوں میں کس قدر فرق ہے کہ ہمارے ہاں عُمُوماً لوگوں کو مَوت کے وقت دُنیا چُھوٹ جانے کا غم کھائے جاتا ہے اور اُنہیں

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[1] احیاء العلوم، ۵/۵۷۵

2 عیونُ الحکایات ،حصہ دوم،ص۳۲۴ بتغیر قلیل

3… حکایتیں اور نصیحتیں،۱۳۳