Book Name:Sadqay ki Baharain ma Afzal Sadqaat

دے۔پھر فِرِشتہ اندھے کے پاس اُس کی پہلے والی حالت میں آیااور کہا :میں ایک مسکین و مسافر ہو ں اور میرا زادِراہ ختم ہو چکا ہے۔ ایسی حالت میں اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ،مگر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی ذات سے اُمّید ہے اور اس کے بعد مجھے تیرا آسرا ہے۔ میں اُسی ذات کا واسطہ دے کر تجھ سے سوال کرتا ہوں ،جس نے تجھے آنکھیں عطا فرمائیں کہ مجھے ایک بکری دے دے تاکہ میں اپنی منزل تک پہنچ سکوں ۔ تو وہ کہنے لگا:واقعی میں پہلے اندھا تھا ،اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے مجھے آنکھیں عطا فرمائیں اور غریب تھا ،اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے مجھے غنی کردِیا، تُو جتنا چاہے اِس مال میں سے لے لے اور جتنا چاہے چھوڑ دے۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم! تُو جتنا مال اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خاطر لینا چاہے لے لے ،مَیں تجھے مَشَقَّت میں نہ ڈالوں گا (یعنی منع نہ کروں گا )۔یہ سُن کر فِرِشتے نے کہا :تیرا مال تجھے مُبارک ہو ،یہ سارا مال تُو اپنے پاس ہی رکھ۔ تم تینوں کااِمتحان لیا گیا تھا ،تیرے لئے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا ہے اور تیرے دونوں دوستوں (یعنی کوڑھی اور گنجے)کے لئے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ناراضی ہے۔(1)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کردہ حکایت سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ ضرورت مندوں کی مَدَد کرنا اور اللہعَزَّ  وَجَلَّ  کے عطا کردہ مال سے اُن کی ضرورتیں پوری کرنا، رِضائے الٰہی کا ذریعہ ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ باوجودِ قُدرت  صَدَقہ و خَیْرات بالْخُصوص صَدَقاتِ واجبہ مثلاً زکوۃ و فِطرہ وغیرہ نہ دینے میں اللہعَزَّ  وَجَلَّ  کی ناراضی اور اُس کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشُکری ہے۔لہٰذا ہمیں صَدَقاتِ واجبہ کی اَدائیگی کے ساتھ ساتھ نفلی طور پر بھی خُوب خُوب صَدَقہ و خَیْرات کرتے رہنا چاہئے۔

دولتِ دُنیا سے بے رَغبت مجھے کر دیجئے

میری حاجت سے مجھے زائد نہ کرنا  مالدار

(وسائلِ بخشش مُرمّم،ص218)

مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ

[1] بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب حدیث ابرص واعمی ...الخ،۲/ ۴۶۳،حدیث: ۳۴۶۴