Book Name:Kamyab Tajir kay Ausaf

رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بہارِشریعت میں مَقْصَدِکسب و تِجارت بیان فرمایا ہے،آئیے !اس کا خُلاصہ سُنتے ہیں : انسانوں کی  ضروریات جتنی زیادہ ہیں،ان کو حاصل کرنا  اتنا  ہی دُشوار ہے کہ اگر  کوئی شخص  اپنی تمام ضروریات پُوری کرنے کیلئے اکیلا ہی سارے کام کرنے بیٹھ جائے (مثلاً خود ہی کھیتی باڑی کرے،پھر اناج بھی خودپِیسے ،کپڑا بُن کر خود ہیسِیے)تو شاید ناکام ہوجائے اور اپنی زندگی کے ایام بآسانی نہ گُزار سکے ، لہٰذااس میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی حکمت ہے کہ اس نے تمام انسانوں کو مختلف شعبوں اور مُتَعدّد قسموں میں تقسیم فرمادیا ہے  کہ ہر ایک جماعت اپنا اپنا کام کرے اور سب کے مَجْمُوعہ سے تمام لوگوں کی ضروریات پوری ہوں۔ مثلاًکوئی کھیتی(باڑی) کرتا ہے کوئی کپڑا بُنْتا ہے،کوئی اپنے ہاتھ سے دوسرےکام کرتا ہے، جس طرح کھیتی باڑی کرنے والوں کو کپڑے کی ضرورت ہوتی ہے،اسی طرح  کپڑا بُننے والے بھی  اَناج  وغیرہ کے حصول کیلئے کھیتی باڑی کرنے والوں کے محتاج  ہوتےہیں، ہر ایک کو دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے،لہٰذا یہ ضرورت پیدا ہوئی کہ ہر ایک کی چیز دوسرے کے پاس پہنچ جائے تاکہ سب کی حاجتیں پُوری ہوجائیں اور کاموں میں بھی  دُشواریاں نہ ہوں۔یہیں  سے مُعاملات کا سلسلہ شُروع ہوا  اورخرید و فروختوغیرہ ہر قسم کے مُعاملات وُجُود میں آئے۔([1])

  میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! یقیناًتجارت يا خريد و فروخت ایک اچھا اورجائز عمل ہے، اسی لئے  ہمارے پيارے آقا، دو عالم کے داتا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان آپس میں خريد و فروخت کرتے اور کپڑے وغيرہ کی تجارت بھی کرتے اور اسی طرح ان کے بعدعلماء اور صُلحاء ِکرام یعنی نیک لوگرَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالیٰبھی تجارت کرتےلیکن کبھی بھی اسلام کے عطا کردہ تجارتی اُصولوں سے نہیں ہٹتے تھے۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ     پارہ 5 سورۃ النساء کی آیت نمبر 29  میں  ارشادفرماتاہے :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا                 ترجَمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو! آپس


 

 



[1]بہار شریعت،۲/۶۰۸