Book Name:HIrs kay Nuqsanat Qanaat ki Barkatain

رکھنے والے کو ’’کھانے کا حَرِیْص‘‘ کہا جائے گا اسی طرح نیکیوں میں اِضافے کے تَمَنَّائیکو’’نیکیوں کا حَرِیْص‘‘جبکہ گُناہوں کا بوجھ بڑھانے والے کو’’ گُناہوں کا حَرِیْص‘‘کہیں گے ۔

حرص کسے کہتے ہیں؟

          مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیمُ الاُمَّت مُفتی احمد یارخان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  اِرشاد فرماتے ہیں :دَرازیِ عُمر(یعنی لمبی عُمر)کی آرزو اَمَل(یعنی خواہش) ہےاور کسی چیز سے سَیْر نہ ہونا ،ہمیشہ زِیادَتی کی خواہش کرنا حرص (کہلاتا ہے)۔یہ دونوں چیزیں اگر دُنیا کے لئے ہیں تو بُری ہیں (اور)اگر آخرت کے لئے ہیں تو اچھی،اِس لئے دَراز(یعنی لمبی)عُمْر چاہنا کہ اللہ (عَزَّ  وَجَلَّ)کی عبادت زِیادہ کرلوں،اچھا ہے۔([1])معلوم ہوا کہ حرْص کے اچّھا اور بُرا ہونے کا دار و مَدار اُسی چیز پر ہے کہ جس  کے حُصول کی حرْص مطلوب ہے۔اگر تو اُس کا تَعَلُّق طاعات و عبادات سے ہو تو ایسی حرْص ہرگز مذموم (بُری)نہیں نیز یہ بھی پتا چلا کہ یہ مال و  دَولت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اِس کی نَحوست کئی اُمور میں کارفرما ہوسکتی ہے۔حَرِیْص انسان اِنتِہائی قابلِ رَحْم ہوتا ہے کیونکہ  اُس پر ہر لَمْحَہ اپنی حرْص کو عَمَلی جامہ پہنانے کا  بُھوت سُوار رہتاہے  اور پھر آگے چل کر یہی مُوذِی مرْض اُسے غُلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیتا اور خُوب  رُسوا کرواتا ہے چُنانچہ

حضرتِ سَیِّدُنا فُضَیل بن عِیاضرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں کہ حرص یہ ہے کہ انسان کبھی اِس چیز کی کبھی اُس چیز کی طَلَب میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ سب کچھ حاصِل کر لینا چاہتا ہے اوراِس مقصد کے حُصول کے لئے اُس کا واسطَہ مختلف لوگوں سے پڑتا ہے۔جب وہ اُس کی ضرورتیں پوری کریں گے تو(اپنی مَرضِی کے مُطَابِق )اُس کی ناک میں نکیل ڈال کر جہاں چاہیں گے لے جائیں گے،وہ اُس سے اپنی عزّت چاہیں گے حتی کہ حَرِیْص رُسوا ہوجائے گا اور اِسی مَحَبَّتِ دُنیا کے باعِث جب بھی وہ اُن کے سامنےسے گُزرے گا تو


 

 



[1]  مرآۃ المناجیح۷/۸۶