Book Name:HIrs kay Nuqsanat Qanaat ki Barkatain

یا جاہ (یعنی عزّت )ومَرتَبہ  مِلا ہے،اُس پر راضی ہو کر قناعت کرلینی چاہئے۔ دُوسروں کی دَولتوں اور نعمتوں کو دیکھ دیکھ کر خُود بھی اُس کو حاصِل کرنے کے پھیر میں پریشان حال رہنا اور غلَط و صحیح ہر قسم کی تدبیروں میں دن رات لگے رہنا یہی جذبَۂ حرْص و لالچ کہلاتا ہے اور حرْص و طمْع دَرْ حقیقت انسان کی ایک پیدائشی خَصْلَت ہے ۔([1])

حدیث شریف میں ہے کہ اگر انسان کے پاس مال کی دو (2)وادِیاں بھی ہوں تو وہ تیسری وادی کی تمنّا کر ے گا اور اِبنِ آدم کے پیٹ کو قبْر کی مِٹّی کے سِوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔([2])

سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ دیکھا آپ نے کہ سرکارِ مدینہ، سُرورِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کس قدر جامِع اَنداز سے حرْص سے مُتَعَلِّق ہماری رَہنمائی فرمائی کہ انسان کی حرص کبھی پوری نہیں ہوتی، اگر اُسے سونے سے بھری وادِیاں بھی مِل جائیں تب بھی مزید کی خواہش کرتا ہے اور ہر گز وہ یہ نہیں سمجھتا کہ بس اب مجھے مال و دَولت کی ضرورت نہیں  کیونکہ یہ چیز تو اُس مَرِیْـضُ الْحِرْص(حرْص کے مریض) کی رَگ  و پے میں خُون کی طرح رَچ بَس چکی ہوتی ہے،لہٰذا وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی حرْص میں کمی آنے کے بجائے مزید اِضافہ ہوجاتا ہے،بالآخِر وقتِ اَجَل آپہنچتا ہے،مَوْت اُس کی زندگی کا چَراغ گُل کردیتی ہے اور ایک ہی جھٹکے میں اُس  کے خوابوں کا محل چَکْنا چُور ہوجاتا ہے۔بے شک  جس خُوش نصیب کے پاس قناعت کی دَولت ہوتی ہے وہ سُکون و اِطمِینان کی زندگی بَسر کرتا ہے، اس کے برعکس جس کے دِل و دماغ میں حرْص کی نَحوست گھر کرجاتی ہے اُسے بسا اَوقات جیتے جی اُس حرص کا اَنْجام بُھگتنا پڑتا ہے۔آئیے!ایک  ایسے اَحمق اور حَرِیْص شخص کا واقعہ سُنتے ہیں جسے عزّت کی دال روٹی نصیب تھی مگر


 

 



[1]  جنتی زیور،۱۱۰

[2]  مسلم ، کتاب الزکاۃ ، باب لوان لابن آدم وادیین لابتغی ثالثاً ،ص۵۲۱، رقم: ۱۰۴۸