تفسیرِ قراٰنِ کریم

تربیت ِ اولاد کا قرآنی مَنہَج

* مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2022ء

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَ هُوَ یَعِظُهٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِﳳ-اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳)) ترجمۂ کنزالعرفان : اور یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : اے میرے بیٹے! کسی کواللہ کا شریک نہ کرنا ، بیشک شرک یقینا بڑا ظلم ہے۔ (پ21 ، لقمان : 13)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

سورۂ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندے حضرت لقمان  رضی اللہُ عنہ  کی اُن نصیحتوں کا بیان فرمایا ہے جو اُنہوں نے اپنے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے بیان فرمائیں۔ اُن نصیحتوں کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ اے میرے بیٹے! کسی شے یا شخص کو الله کا شریک نہ قرار دینا ، بے شک شِرْک یقیناً بڑا ظُلْم ہے اور چھوٹی سے چھوٹی برائی سے بھی بچنا ، کیونکہ برائی اگر رائی کے دانے جیسی چھوٹی سی بھی ہوگی اور وہ کسی چٹان ، آسمان ، زمین ، غار میں کہیں بھی ہو ، اُسے قیامت کے دن الله تعالیٰ بندے کے سامنے لے آئے گا۔ اور نماز قائم رکھنا ، اچھائی کا حکم دینا ، برائی سے منع کرنا اور مصیبت پر صَبْر کرنا بیشک یہ بہت ہِمَّت والے کاموں میں سے ہیں۔ یونہی مغرورانہ اور متکبرانہ رویہ اختیار نہ کرنا ، جیسے لوگوں سے ٹیڑھے منہ بات نہ کرنا ، چیخ چِلا کر بولنے کی بجائے مناسب آواز میں کلام کرنا ، کیونکہ چیخنے کی آواز بُری آواز ہے اور سب سے بُری ، گدھے کی آواز ہے ، جو چیخ چیخ کر رَینکتا ہے۔ نیز اپنے چلنے میں درمیانی چال سے چلنا ، اَکڑ کر نہ چلنا ، کیونکہ الله تعالیٰ کو اَکڑنے والا ، تکبر کرنے والا بندہ پسند نہیں۔

حضرت لقمان  رضی اللہُ عنہ  نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں فرمائیں ، انہیں بہت غور سے پڑھیں کہ انہوں نے اولاد کو زندگی کے کن کاموں کے متعلق نصیحت فرمائی اور اُس کی روشنی میں ہمیں اپنی اولاد کی تربیت کیسے کرنی چاہئے۔  اوپر کے خلاصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کی تربیت کے معاملے میں والدین کو بطورِ خاص درج ذیل چار اُمور کا لحاظ ضرور کرنا چاہئے۔

(1)اولاد کے عقائد کی تعلیم ، اصلاح ، پختگی اور اِستقامت پر توجہ دینی چاہئے۔ (2)اُن کے ظاہری اعمال و عبادات جیسے نماز وغیرہ کی طرف توجہ دیں ، یعنی اُنہیں نماز سکھائیں اور اُسے پڑھنے کا عادی بنائیں ، یونہی ظاہری باطنی آداب کے ساتھ نماز پڑھنے کی تعلیم و تربیت دیں۔ (3)اولاد کے باطن کی اصلاح اور دُرُستی کی جانب توجہ کرنی چاہئے کہ جب یہ یقین دل میں بٹھا دیں گے کہ اللہ سمیع و بصیر ، علیم و خبیر ہے ، وہ بندے کا ہر عمل ہر وقت دیکھ رہا ہے ، کوئی عمل اُس سے پوشیدہ نہیں اور ہر چھوٹے بڑے عمل کا قیامت میں حساب دینا ہے ، تو باطنی اِصلاح بہت آسان ہوجاتی ہے۔ (4)اولاد کی اَخلاقی تربیت کریں ، آدابِ زندگی ، مُعاشرتی اخلاقیات اور اسلامی کردار سکھائیں۔

یہ چاروں چیزیں دنیا اور آخرت ، دونوں کے لئے نہایت اہم ہیں ، پہلے نمبر پر عقیدہ ہے : عقائد کی دُرُستی ، ایمان کی پختگی اور خدا پر توکُّل و اعتماد ، دنیا میں بَلا و مصیبت کو برداشت کرنے اور ان سے نجات پانے کا ذریعہ ہے ، جبکہ عقائد کا بگاڑ ، آفتوں ، مصیبتوں اور بلاؤں کے نازل ہونے ، دلی بے قراری اور قلبی بے چینی کا ذریعہ ہے۔ یونہی عقائد کی درستی آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ، خوشنودی اور جنّت میں داخلے کا قوی سبب ہے ، لیکن عقائد کی خرابی اور گمراہی کی حالت میں موت جہنم میں جانے کا مستحق بنا دیتی ہے اور جو کفر کی حالت میں مر گیا ، وہ تو ضرور ہمیشہ کے لئے جہنم کی سزا پائے گا۔ دوسرے نمبر پر عبادت ہے : عبادت ، دنیا میں نیک نامی اور آخرت میں جنت میں جانے کا وسیلہ ہے ،  عبادت کے ذریعے خدا سے تَعَلُّق مضبوط ، قُرْبِ الٰہی نصیب ہوتا اور مقصدِ تخلیق کی تکمیل ہوتی ہے ، اِس کے برخلاف عبادت میں غفلت خدا سے دوری ، شیطان کی مَعِیَّت ، دنیا میں ذِلَّت و رُسْوائی اور آخرت میں جہنم میں داخلے کاسبب ہے۔ تیسرے نمبر پر باطنی اعمال ہیں کہ خدا سے قلبی تعلُّق مضبوط ہو۔ خدا کی صفات کا مُرَاقَبہ کرنا ، دل کی طہارت ، نفس کی پاکیزگی ، قَلْب کے نور ، باطن کی روحانیت اور مُکاشَفہ و مُشاہَدہ کے حصول کا قوی ترین سبب ہے۔ انبیاء و اولیاء کے مَراتِب میں بہت زیادہ عمل دخل اِن ہی باطنی اعمال کا ہے۔ چوتھے نمبر پر اچھے اخلاق ہیں : اگر اَولاد کے اخلاق اچھے ہوں گے تو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور لوگ اُن کی عزت کریں گے ، جبکہ بُرے اخلاق کی صورت میں معاشرے میں جہاں ان کا وقار ختم ہوگا وہیں اُلٹا والدین کی بدنامی اور رسوائی بھی ہوگی۔ اچھے اخلاق آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث ہیں ، جبکہ برے اخلاق غضبِ الٰہی اور لوگوں کی طرف سے خود پر بوجھ لادنے کا سامان ہیں۔

افسوس! ہمارے معاشرے میں والدین اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں یہ تو دیکھتے ہیں کہ اُن کا بچہ دُنْیَوی تعلیم اور دنیا داری میں کتنا اچھا ، چالاک اور ہوشیار ہے ، لیکن اِس طرف توجہ بہت ہی کم کرتے ہیں کہ اُس کے عقائد و نظرِیّات کیا ہیں اور ا ُس کے ظاہری و باطنی اعمال کس رُخ پر جا رہے ہیں۔ والدین کی یہ دلی خواہش تو ہوتی ہے کہ اُن کا بچہ دنیا کی زندگی میں کامیاب انسان بنے ، اُس کے پاس عہدہ ، منصب ، عزت ، دولت اور شہرت ہو ، لیکن یہ تمنا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کہ اُن کی اولاد ، دین و آخرت کے اعتبار سے بھی کامیابی کی راہ پر چلے ، مسلمان ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے اپنے دین و مذہب اور اس کی تعلیمات سے اچھی طرح آشنا ہو ، اُس کے عقائد و اعمال درست ہوں اور اُس کا طرزِ زندگی اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ والدین کی یہ آرزو تو ہوتی ہے کہ ان کی اولاد دنیا میں خوب ترقی کرے تاکہ اولاد کے ساتھ ساتھ والدین کی دنیا بھی سَنْوَر جائے اور انہیں بھی عیش و آرام نصیب ہو ، لیکن اِس طرف توجہ نہیں کرتے کہ اُن کی اولاد قبر کی زندگی میں اُن کے چین کا باعث بنے اور آخرت میں ان کے لیے شفاعت و مغفرت کا ذریعہ بنے۔

بچوں کی تربیت کا طریقہ : بچوں کی تربیت کے لئے انہیں اپنا تھکا ہوا اور تھوڑا سا وقت نہیں ، بلکہ تازہ اور بھرپور وقت دیں۔ اُن کے پاس بیٹھیں ، باتیں کریں ، مصروفیات پوچھیں ، صحیح عقائد ، اچھے اعمال پر گفتگو کریں ، سیرتِ رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  و سوانحِ صحابہ و اولیاء  رضوان اللہ عنہم  کی باتیں سنائیں ، کتابیں لاکر دیں ، مُطالَعہ کا شوق دلائیں ، پڑھے ہوئے کے بارے میں سوالات کریں ، اُن سے کتاب سنیں ، حسنِ اخلاق اور اچھے کام پر حوصلہ اَفزائی کریں ، بداخلاقی اور برے کام پر سمجھائیں اور اُس کے نقصان بتائیں۔ بچوں کو صحت و صفائی کی اہمیت بتائیں ، متوازن اور صحت مند غذا بتائیں ، اس کے کھانے کی عادت ڈالیں ، صفائی کا معمول بنانے کی تربیت دیں۔ مفید اور فضول کاموں کا فرق بتائیں ، جیسے مُطالَعہ و تلاوت و عبادت مفید ہے ، یونہی سیر ، ورزش اور جائز تفریح اچھی چیز ہے ، جبکہ موبائل کی بہت زیادہ مشغولیت ، انٹرنیٹ(Internet)کا کثیر استعمال برا ہے۔ محنت ، ہمت اور چستی کامیابی کے ذرائع ہیں ، جبکہ سستی ، کاہلی اور کام چوری زندگی ناکام بنا دیتے ہیں۔ الغرض اولاد کو وقت اور توجہ دیں گے تو والدین کی زندگی آسان ہوگی اور بچوں کی زندگی بھی کامیاب ، ورنہ خود بھی دُکھی ہوں گے اور اولاد بھی پریشان۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اولاد کی ایسی تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اُن کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کاذریعہ بنے اور والدین کے دُنْیَوی سکون اور اُخروی نجات کاسامان ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ، دارالافتاء اہلِ سنّت ، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code