بُخاراشہر میں ایک بچہ تھا ، جس کی عمر تقریباً دس سال تھی ، ابتدائی تعلیم حاصل کر رہا تھا کہ علمِ حدیث کا شوق ہوا
ایک دفعہ کی بات ہے ملکِ یَمَن میں ایک مچھیرا رہتا تھا اور مچھلیاں پکڑ کر اپنا گزارا کرتا تھا۔
امیرُ المؤمنین! میں بچہ ضرور ہوں لیکن میں حضرت سلیمان علیہ السَّلام کے ہُدہُد پرندے سے چھوٹا نہیں ہوں
پیارے بچّو! تقریباً 15 سو سالپہلے کی بات ہے کہ ایک ماں اپنے بچّے کے ساتھ سفر پر تھی ،
ذہین بچّو! آج ہم آٹھویں صدی ہجری کے ایک بچّے کی ذِہانت کا پڑھنے جا رہے ہیں جس کے پاس حافظہ (Memory) کی بہترین نعمت موجود تھی
مدینۂ پاک میں بچّے کھیل رہے تھے ، اللہ کے پیارے اور آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہاں سے گزرے اور بچّوں کو سلام کیا ، پھر ایک بچّے کوآپ نے کسی کام سے بھیج دیا۔
وہ مسلمان مرد کے مُشابہ ہوتا ہے
آپ کی سیدھی طرف آپ کے چچّا حضرت عباس کے چھوٹے بیٹے عبدُاللہ بیٹھے تھےجبکہ دوسری طرف بڑی عمر کے صحابہ تھے۔
یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حکومت تھی۔