اَمّی جان نے آپی کے ساتھ مل کر سبھی بچّوں کے لئے لنچ تیار کر لیا تھا ، ننھے میاں کئی آوازیں سننے کے باوجود بھی ہاتھ بٹانے کو تیار نہ ہوئے تو آپی اپنی کزنوں کے ساتھ
اتوار کی خوشگوار صبح تھی ، آسمان پر بادل ہونے کی وجہ سے موسم بھی بہت پیارا لگ رہا تھا۔ سبھی گھر والے ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد کوئی نہ کوئی مصروفیت تلاش کر چکے تھے۔
ننھے میاں کی نعت ختم ہوئی تو طلبہ کے ساتھ ساتھ ٹیچرز کی طرف سے بھی ما شآءَ اللہ کی آوازیں آئیں۔ اب تقریر (Speech) کی باری تھی تو دسویں کلاس کے غلام رسول بھائی ڈائس پر آگئے
جب سے ربیعُ الاول کا چاند نظر آیا تھا ننھے میاں کی خوشی دیکھنے والی تھی ، ایسا لگتا تھا جیسے بہت بڑا انعام ملنے کے دن قریب سے قریب آ رہے ہوں اور بات تھی
دراصل ٹیچر فاروق کا اس اسکول میں آج پہلا دن تھا ، تبھی وہ بچّوں کی ٹوٹل مصروفیات کو بڑے غور سے دیکھ رہے تھے اچانک انہوں نے دیکھا کہ ایک بچہ آرام سے چلتے ہوئے واٹر کولر کے پاس آیا
جی ہاں ، آئیں میں آپ کو حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کی سخاوت کا ایک واقعہ سناتی ہوں : آپ کو پتا ہے پہلے لوگ کنووں (Wells) سے پانی حاصل کرتے تھے
اَمّی پیسے دیجئےنا ، مجھے آئس کریم کھانی ہے۔ ننھے میاں نے اَمّی سے پیسےمانگے تو اَمّی نے کہا : بیٹا! ابھی دو گھنٹے پہلے تو آپ نے آئس کریم کھائی ہے۔
امّی جان مسکراتے ہوئے کہنے لگیں : یہ بتا دیا تو سرپرائز کیسے رہا ، آپ جلدی سے پراٹھا اور آملیٹ ختم کر کے اسکول جائیں ، واپسی پر آپ کا سرپرائز آپ کو خود مل جائے گا۔
ننھے میاں دادا کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد بازار گئے۔ بازار میں دادا ایک مرغی والے کی دکان پر پہنچے ، ریٹ لسٹ پڑھنے کے بعد پنجرے میں موجود ایک مرغی