Book Name:Al Madad Ya Ghaus e Azam

اُذْکُرُوااللّٰـہَ، تُوبُوْا اِلَی اللّٰـہِ  وغیرہ سُن  کر ثواب کمانے اور صدا لگانے والوں کی دل جُوئی کے لئے بُلند آواز سے جواب دوں گا۔٭ بَیان کے بعد خُود آگے بڑھ کر سَلَام و مُصَافَحَہ اور اِنْفِرادی کوشش کروں گا ۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                         صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

المدد یا غوثِ اعظم

بغداد کے ایک عالمِ دِین نمازِ جمعہ کے بعد اپنے شاگردوں کے ساتھ فاتحہ خوانی کیلئے قبرستان گئےتو وہاں ایک سیاہ رنگ کا سانپ دیکھا توانہوں نے  اسے مار ڈالا ۔کچھ دیر کے بعد گرد وغُبار  اُڑی اور  وہ اپنے شاگردوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔اپنے استاد صاحب کی اچانک  گمشدگی پر سارے طلبہ بڑے حیران وپریشان   بیٹھے تھے ۔ کچھ دیر بعد دیکھاکہ   اُستادِمحترم   اعلیٰ  قسم کا لباس پہنے  چلے آرہے ہیں ۔ جب ان سے  مُعاملہ دریافت کیا  گیا تو فرمانے لگے :مجھے  جنّات اُٹھاکر ایک جزیرے (Island)میں لے گئے اور مجھے دریا میں غوطہ دینے کے بعد  اپنے بادشاہ کے سامنے حاضر کردیا  ۔ میں نے دیکھا کہ جنّات کا بادشاہ ننگی تلوار   ہاتھ میں  لئے تخت پربیٹھا ہے  اور اس کے سامنے ایک نوجوان کی لاش رکھی ہے  جس سے خُون بہہ رہا ہے ۔ جنّات کے بادشاہ  نے میرے بارے میں پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ  یہی  شخص اس کا قاتل ہے ۔یہ سنتے ہی   بادشاہ غضبناک ہو کر  کہنے لگا  اس نے تیرا کوئی نُقصان  نہیں کیا  پھر بھی تُو نے اس کو ناحق قتل کردیا؟ میں نے کہا: اس نوجوان کو میں نے قتل نہیں کیا آپ کے خُدّام مجھ پر اِلزام لگارہے ہیں ۔ خادموں نے کہا کہ  اس کے قاتل ہونے کا ثبوت  یہ ہے  کہ اس شخص کا  عصا خُون سے آلُودہ ہے ۔میں نے کہا  یہ خون  تو ایک سانپ کاہے جسے میں نے مارا تھا  ۔ بادشاہ نے کہا جس سانپ کو  تُو نے مارا تھا  وہ میرا ہی بیٹا تھا ۔بادشاہ نے قاضی سے کہا یہ شخص    قتل کا اقرار کرچکا ہے،لہٰذااس کے قتل کا حکم صادر کیجئے ۔یہ سنتے ہی  قاضی نے  بھی میرے قتل کا حکم جاری  کردیا۔ اب جنّات کا بادشاہ  تلوار  لے کر مجھ