Book Name:Waham Aur Bad Shuguni

گیا کہ ایک شخص کے متعلق مشہورہےاگر صبح اس کی مَنحُوس صُورَت دیکھ لی جائےیا کہیں  کام کو جاتے ہوئے یہ سامنے آجائے تو ضَرورکچھ نہ کچھ دِقّت اورپریشانی اُٹھانی پڑے گی اورچاہے کیسا ہی یقینی طور پر کام ہوجانے کا وُثُوق(اِعتماد اور بھروسا) ہو لیکن ان کا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ ضَروررُکاوٹ اور پریشانی ہوگی چنانچہ اُن لوگوں  کو ان کے خیال کے مناسب ہربار تجربہ(Experience) ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ برابر اِس بات کا خیال رکھتے ہیں  کہ اگر کہیں  جاتے ہوئے اس سے سامنا ہوجائےتو اپنے مکان پر واپس آجاتے ہیں اورتھوڑی دیر بعد یہ معلوم کرکے کہ وہ منحوس سامنے تو نہیں  ہے !پھر اپنے کام کے لئے جاتے ہیں۔اب سُوال یہ ہے کہ ان لوگوں  کا یہ عقیدہ اور طرزِ عمل کیسا ہے؟ کوئی قباحتِ شرعیہ (شرعی خرابی ) تو نہیں ؟

اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جواب ارشاد فرمایا:شرعِ مطہر (پاکیزہ شریعت )میں  اس کی کچھ اصل (حقیقت )نہیں، لوگوں  کا وہم سامنے آتا ہے۔ شریعت میں  حکم ہے: اِذَا تَطَیَّرْتُمْ فَامْضُوْایعنی جب کوئی شگونِ بَد  گمان میں  آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔ وہ طریقہ محض ہندوانہ ہے مسلمانوں  کو ایسی جگہ چاہیے کہ  ’’اَللّٰہُمَّ لَاطَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ ،وَلَا خَیْرَ   اِلَّا خَیْرُکَ، وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ‘‘([1])پڑھ لے اور اپنے رب (عَزَّوَجَلَّ) پر بھروسا  کرکے اپنے کام کو چلا جائے ، ہر گز نہ رُکے ،نہ واپس آئے۔ وَاﷲُ تعالٰی اَعْلَمُ   (فتاویٰ رضویہ،۲۹/۶۴۱ ملخصاً)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دِینِ اسلام اس طرح کے وہم وخیالات کی مذمّت کرتاہے کہ جس سے کسی کی دل آزاری ہو ،لہٰذا ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتےہوئے   بدشگونی  ووہم سے بچنا چاہیے ۔ آئیے! اب شگون کی تعریف اور اس کی قسموں کے متعلق سنتے ہیں۔ چنانچہ

شُگُون کسے کہتے ہیں ؟


 

 



[1]  (ترجمہ :اےاﷲ!نہیں  ہے کوئی بُرائی مگر تیری طرف سے اور نہیں  ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں)