Book Name:Waham Aur Bad Shuguni

او ر اس کے ساتھی خوشی سے پھُولے نہ سَمارہے تھے۔ بھرا ہوا چھکڑا دیکھ کر وہ شخص زور دار آواز میں بادشاہ سے مخاطب ہوا:کہیے بادشاہ سلامت ! ہم دونوں میں سے کون منحوس ہے ، میں یا آپ ؟یہ سنتے ہی بادشاہ کے سپاہی اس شخص کے سر پر تلوار تان کر کھڑے ہوگئے لیکن بادشاہ   نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ وہ شخص بِلا خوف پھر مخاطب ہوا:کہیے بادشاہ سلامت! ہم میں سے کون منحوس ہے ’’میں یا آپ؟‘‘ میں نے آپ کو دیکھا تو میں رسیوں میں بندھ کر چِلچلاتی دھوپ میں دن بھر جلتا رہا جب کہ مجھے دیکھنے پر آپ کو آج خوب شکار ہاتھ آیا ۔یہ سُن کر بادشاہ نادِم ہوا اور اس شخص کو فوراً آزاد کردیا اوربہت سے اِنعام و اِکرام سے بھی نوازا۔(بدشگونی ،ص۶)  

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سُنا آپ نے وہمی بادشاہ نے تو ایک آنکھ والے شخص کو منحوس  جان کر اسے کڑی دُھوپ میں پورادن قید رکھنے کی  سزا   دی مگر پھر بھی اسے شکار میں پہلے سے کہیں زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ۔ اس حکایت سے تو ان کے وہم کی مکمل کاٹ ہوگئی جو  کسی انسان ،جانور یا کسی  دن مہینے کو محض اپنے وہم کی بنیاد پر  منحوس خیال کرتے ہیں حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ یادرکھئے!جو شخص وہم کی آفت میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اسے ہر چیز منحوس محسوس ہونے لگتی ہے، حتّٰی کہ وہمی شخص کم عقل لوگوں کی باتوں میں آکر غلط فیصلے کرکے نہ صرف خود آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ دیگر لوگوں کیلئے بھی وبالِ جان بن کر رہ جاتا ہے ۔ کسی مسلمان کےمَنْحوس ہونے کا خیال نفرت کے وبال  میں ڈال سکتا ہے۔ مَنحْوس ہونے کا وہم شیطان(Satan) کا وہ  ہتھیار ہے  جو مسلمانوں کو باہم  دست و گریبان کراتا ، لڑائی ، جھگڑے کرواکر چین  و سکون کی بردبادی کا سبب بن جاتا ہے۔یہ بات  اچھی  طرح ذِہْن نشین کرلیجئے  کہ کسی شخص،جگہ، چیز یا وَقْت کومنحوس جاننے کا اسلام میں  کوئی تصوُّرنہیں یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں۔

میرےآقااعلیٰ حضرت،امامِ اہلِسنّت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے اسی نوعیت کا سُوال کیا