Khauf e Khuda Me Rone Ki Ahmiyat

Book Name:Khauf e Khuda Me Rone Ki Ahmiyat

وَ  خَافُوْنِ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ(۱۷۵۴، آلِ عمران:۱۷۵)

تَرجَمَۂ کنزُ العرفان:اور مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو ۔

آنسو بہائیں مگر کہاں؟

 پىارے اسلامى بھائىو!معلوم ہوا!ایمان کے تقاضوں میں سےا یک تقاضا خوفِ خدا بھی ہے۔ یقیناً فکرِ آخرت سے بےقرار رہنا، عذابِ دوزخ سے رونا اور خوفِ خدا میں ڈُوبے رہنا بہت بڑی نعمت ہے۔ افسوس!آج دنیا کےغم میں توآنسو بہائے جاتے ہیں،مگر فکرِ آخرت میں رونے  کا جذبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔غور تو کیجئے! اس دنیا کی حیثیت ہی  کیا ہے  کہ اس کے لیے آنسو بہائے جائیں۔ یہ دنیا  تو ایک  مسافرخانے کی طرح ہے ،جس میں مسافر آ کر ٹھہرتے ہیں اور چند دن رہنے کے بعد رُخصت ہوجاتے ہیں،مسافر خانے میں چند دن رہنے والا کبھی بھی  وہاں لمبی لمبی اُمیدیں نہیں باندھتا۔ مسافر خانے میں چند دن رہنے والا کبھی بھی  وہاں کی رونقوں سے دل نہیں لگاتا۔ لہٰذا ہمیں بھی دنیا کی فکر نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی اس کےلیے آنسو بہانے چاہئیں۔ بلکہ *آنسو بہانے ہوں تو خوفِ خدا میں بہائیے*عشقِ رسول میں بہائیے، * فکرِ آخرت میں بہائیے، * گناہوں کی کثرت پر بہائیے، * نیکیاں نہ کر سکنے پر بہائیے، *موت کی سختیوں کو یاد کرکے  بہائیے،  *غمِ مدینہ میں بہائیے، *اللہ  پاک کی خُفیہ تدبیر کے خوف سے بہائیے، * قبر کو یاد کر کے بہائیے، * قبر کی گھبراہٹ کا سوچ کر بہائیے، * قبر کے اندھیرے کو یاد کر کے بہائیے، * قبر کی تنگی کو یاد کر کے بہائیے، *قیامت کے ہولناک مراحل کویاد کر کے بہائیے، * یہ سوچ کر آنسو بہائیے کہ قیامت کے دن ہم اپنے ایک ایک عمل کا حساب کس طرح دے سکیں گے؟ * محشر  کے دن کی گرمی