Book Name:Shaheed Ke Fazail
(میری خواہش ہے کہ ) تو مجھے حیات عطا فرما، تاکہ دوبارہ تیری راہ میں شہید کر دیا جاؤں۔([1])
سُبْحٰنَ اللہ! پیارے اسلامی بھائیو! یہاں پہلے تو یہ وضاحت سُن لیجئے! اللہ پاک پردے کے پیچھے سے کلام فرماتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک بغیر دِیدار کرائے کلام فرماتا ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السَّلام کو ہم کلامی کا شرف عطا کیا گیا اور بِالْمُشَافَہ کلام فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک دِیدار بھی عطا فرمائے اور کلام بھی فرمائے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اللہ پاک کے ساتھ ہم کلامی کا شرف اِس دُنیا کی زندگی میں صِرْف و صِرْف انبیائے کرام علیہم السَّلام ہی کو نصیب ہوتا تھا، عام مسلمانوں، اللہ پاک کے نیک بندوں یا شہیدوں کو یہ شرف صِرْف و صِرْف دُنیا سے جانے کے بعد ہی نصیب ہو سکتا ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو! اِس خوبصُورت روایت میں ایک تو یہ بات بیان ہوئی کہ حضرت جابِر رَضِیَ اللہُ عنہ کے والِد صاحِب پر اللہ پاک نے خاص کرم فرمایا کہ انہیں بِالْمُشَافَہ ہم کلامی کا شرف بخشا۔ پِھر ساتھ ہی اس بات پر بھی غور فرمائیے کہ شہید ہوتے ہیں، عرشِ اِلٰہی کے ساتھ لٹکی ہوئی قندیلوں میں، حضرت جابِر رَضِیَ اللہُ عنہ کے والِد صاحِب کے ساتھ عالَمِ برزخ میں یعنی اس دُنیا کے بعد آنے والے ایک دوسرے جہان میں اور وہ بھی عرشِ اِلٰہی کے پاس کلام ہوا تھا مگر مَحْبوبِ کریم صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم مدینۂ پاک کی سرزمین پر بیٹھ کر لفظ بہ لفظ یہ پُوری گفتگو بتا رہے ہیں۔ سُبْحٰنَ اللہ! پِھر ہم کیوں نہ کہیں:
دُور و نزدیک سے سُننے والے وہ کان
کانِ لَعْلِ کرامت پہ لاکھوں سلام([2])