Book Name:Khareed o Farokht Ki Chand Ahtiyatein

گئی۔ ایک دِن آپ کے پاس ایک شخص آیا : کہا بادام لینے ہیں ، فرمایا : لے لو ! پوچھا : کتنے کے ؟ فرمایا : 63 دِینار کے۔ گاہک بھی نیک آدمی تھا ، اس نے کہا : ان باداموں کی قیمت تو مارکیٹ میں 90 دِینار ہو چکی ہے۔ حضرت سِرِّی سقطی رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا : میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ ان باداموں پر 3 دِینار ہی منافع کماؤں گا ، لہٰذا مارکیٹ میں ان کی قیمت جتنی بھی ہے ، میں نے 60 دِینار کے خریدے تھے ، اب 63 دِینار ہی کے بیچوں گا۔

اب گاہک کہتا ہے : میں تو 90 دِینار کے خریدوں گا۔ حضرت سِرِّی سقطی رحمۃُ اللہ علیہ فرما رہے ہیں : میں تو 63 دِینار کے ہی بیچوں گا ، دونوں ایک دوسرے کے اتنے خیر خواہ تھے کہ اُن دونوں کا سودا ہی نہ ہو سکا ، گاہک چاہتا ہے؛ دُکاندار کو نفع پہنچے ، دُکاندار چاہتا ہے گاہک کا بھلا ہو جائے ، بس اسی بحث میں نہ گاہک نے بادام خریدے ، نہ حضرت سِرِّی سقطی رحمۃُ اللہ علیہ نے بیچے ، بالآخر گاہک خالی ہاتھ ہی واپس چلا گیا۔ ( [1] )

اُمّتِ محبوب کا یاربّ بنا دے خیر خواہ      نفس کی  خاطِر کسی سے دل میں  میرے  ہو  نہ  بَیر

پیارے اسلامی بھائیو ! یہ ہے ایک دوسرے کی بھلائی... ! ! کیا ہم ایسا کرتے ہیں ؟ ہمارے ہاں تو گاہک اور دُکاندار کے جھگڑے کا موضوع ہی کچھ اور ہوتا ہے ، گاہک چاہتا ہے میں 50 کی چیز 10 روپے میں خرید لوں اور دُکاندار چاہتا ہے میں 50 کی چیز 100 میں بیچ دوں۔ نہ گاہک دکاندار کی بھلائی چاہتا ہے ، نہ دُکاندار گاہک کا بھلا سوچتا ہے ، پھر نتیجہ کیا ہے ؟ دھوکہ دہی ، ناپ تول میں کمی ، خیانت اور ایسی چیزیں بازاروں میں بڑھ رہی ہیں ، ہماری تجارت دِن بہ دِن نیچے سے نیچے کی طرف جا رہی ہے اور مسلمان دُنیا بھر میں تَنَزلی کی


 

 



[1]... احیاءالعلوم ، کتاب : آداب الکسب ، باب الرابع : فی بیان العدل ، جلد : 2 ، صفحہ : 102 بتغیر قلیل۔