Book Name:Yamni Sahabi Ki Riqqat Angaiz Hikayat

قرآنی سُورت انہوں نے بارگاہِ رسالت میں سُنائی ، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :

اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲)   (پارہ30 ، سورۃاالتکاثر : 1-2)

ترجمہ کنز الایمان : تمہیں غافل رکھا مال کی زیادہ طلبی نے یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔

قرآنِ کریم کی اس مختصر سُورت میں کتنے زبردست انداز میں حِرْص اور لالچ کی کاٹ فرمائی گئی ہے ، ہمیں بتایا گیا ہے کہ  ہم اس دنیا میں مختصر وقت کے لئے آئے ہیں ، ایک دِن یہاں سے رَختِ سفر باندھنا اور قبر میں اترنا ہے ، ہم یہ بات جانتے ہیں مگر مال کی زیادہ طلبی ، حرص اور لالچ نے ہمیں غافِل کر دیا ، لاکھ ملے تو 2 لاکھ مانگتے ہیں ، 2 لاکھ ملے تو 4 لاکھ کی خواہش ہے ، کروڑ پتی بنے تو ارب پتی بننے کی ہوس ہے ، بس اسی ایک دُھن میں مگن ، نہ مرنا یاد ، نہ قبر میں اترنا یاد ، نہ نکیرین کے سوالات کی فکر ، نہ قبر کا دبانا یاد ، نہ قبر کی تنگی ، وہاں کا اندھیرا ، وہاں کی تنہائی یاد ، نہ قیامت کے دِن اُٹھنا یاد ، نہ ہر ہر نعمت کا حساب دینا یاد ہے ، ہاں بَس یاد ہے تو “ ھَلْ مِن مَّزِیْد (یعنی اَور ملے ، اور ملے) “  کا نعرہ یاد ہے ، بس اس میں مگن زندگی کے دِن رات گزارتے چلے جا رہے ہیں مگر ہم یاد رکھیں یا بھول جائیں ، ایک دِن حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائیں گے ، سانس اٹکے گی ، آخری ہچکی آئے گی اور رُوح بدن سے جُدا ہو جائے گی ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہمیں اندھیری قبر میں اُتار دیا جائے گا ، مال ودولت کا ڈھیر ، بینک بیلنس ، کاریں ، کوٹھیاں سب یہیں کا یہیں رِہ جائے گا۔

تو نے منصب بھی کوئی پایا تو کیا                گنجِ سِیْم و زَرْ بھی ہاتھ آیا تو کیا

قصرِ عالیشان بھی بنوایا تو کیا                    دبدبہ بھی اپنا دکھلایا تو کیا

ایک دِن مرنا ہے ، آخر موت ہے

کر لے جو کرنا ہے ، آخر موت ہے