Book Name:Maut Ki yad Kay Fazail

مرنا ہی نہیں ۔ چنانچہ وہ موت سے غافل خوشیوں میں بدمست اور کھیل تماشوں میں مگن تھے ، ان کے کفن بازار میں آچکے تھے لیکن وہ اس سے بے خبر دنیا کی رنگینیوں میں گُم تھے ، آہ! اسی بے خبری کے عالَم  میں انہیں یکا یک موت نے آلیاا ور وہ قبْروں میں پہنچادیئے گئے ، ان کے ماں باپ غم سے نڈھال ہوگئے ، ان کی بیوائیں بے حال ہوگئیں ، ان کے بچے بلکتے رہ گئے ، مستقبل کے حسین خوابوں کا آئینہ چکنا چُور ہوگیا ، امیدیں ملیا میٹ ہوگئیں ، ان کے کام ادھورے رہ گئے ، دنیا کے لیے ان کی سب محنتیں رائیگاں گئیں ، وُرَثاء ان کے اموال تقسیم کرکے مزے سے کھارہے ہیں اور ان کو بھُول چکے ہیں ۔ اس تصور کے بعد اب ان کی قبْر کے حالات کے بارے میں غور کیجئے کہ اُن کے بدن کیسے گل سڑ گئے ہوں گے ، آہ! ان کے حسین چہرے کیسےمسخ ہوگئے ہوں گے ، وہ کھلکھلا کر ہنستے تھے تو منہ سے پھول جھڑتے تھے مگر آہ! اب ان کے وہ چمکیلے خوبصورت دانت جھڑ چکے ہوں گے اور منہ میں پیپ پڑگئی ہوگی ، ان کی موٹی موٹی دلکش آنکھیں اُبل کر رُخساروں پر بہہ گئی ہوں گی ، ان کے ریشم جیسے بال جھڑ کر قبْر میں بکھر گئے ہوں گے ، ان کی باریک اونچی خوبصورت ناک میں کیڑے گھُسے ہوئے ہوں گے ، ان کے گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند پتلے پتلے نازک ہونٹوں کو کیڑے کھارہے ہوں گے ، وہ ننھے ننھے بچے جن کی توتلی باتوں سے غمزدہ دل کھل اُٹھتے تھے ، مرنے کے بعد اِن کی زبانوں پر کیڑے چمٹے ہوں گے ، نوجوانوں کے قابلِ رشک توانا ورزشی جسم خاک میں مل گئے ہوں گے ۔ ان کے تمام جوڑ الگ الگ ہوچکے ہوں گے ۔

یہ تصور کرنے کے بعد یہ سوچئے کہ آہ! یہی حال عنقریب میرا بھی ہونے والا ہے ، مجھ پر بھی نزع کی کیفیت طاری ہوگی ، آنکھیں چھت پر لگی ہوں گی ، عزیز و