Book Name:Maut Ki yad Kay Fazail

ہے ، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص نَزع کے وَقْت روناچاہے ، چِلَّانا چاہے ، مدد مانگناچاہےتب بھی ایسا نہیں کرسکتا اور اگر کچھ طاقت باقی بھی ہوتو اس وَقْت حلق اور سینے سےغَرغَرَہ اورگائے بیل کے ڈکْرَانے(چِلّانے) کی آواز ہی  آتی ہے ، رَنگ مٹیالا ہوجاتا ہےگویا مٹی سے بناتھا تومرتے وقت بھی مٹی ظاہِر ہوتی  ہے ، ہر رَگ سے رُوْح نکالی جاتی ہے ، جس کی وَجہ سے تکلیف جسم کے اَندر باہر ہرجگہ پھیل جاتی ہے ، آنکھوں کے ڈَھیلےاُوپر چڑھ جاتے ہیں ، ہونٹ سُوکھ جاتے ہیں ، زبان سُکڑ جاتی ہے اور اُنگلیاں نیلی پڑجاتی ہیں ، جس بدن کی ہر ہررَگ سے رُوْح نکالی جاچکی ہو ، اس کی حالت مَت پُوچھوکیونکہ اگر جِسْم کی  ایک رَگ بھیکِھنچ جائے تو بہت زِیادَہ تکلیف ہوتی ہے۔ ذراغورتو کروکہ پوری رُوْح کو ایک رَگ سے نہیں بلکہ ہر ہررَگ سے نکالاجاتا ہے تو کس قَدر تکلیف ہوتی ہوگی؟اور پھر آہستہ آہستہ جسم کے ہر ہر حصّےپرموت طاری ہوتی ہے ، پہلےقدم ٹھنڈے پڑتے ہیں ، پھر پنڈلیاں اورپھررانیں ٹھنڈی پڑجاتی ہیں اور یوں جِسْم کے ہرہرحصّے کو سختی کے بعد پھر سختی اور تکلیف کے بعد پھر تکلیف  کا سامنا کرناپڑتا ہے ، یہاں تک کہ رُوْح حلق تک کھینچ لی جاتی ہے ، یہی وہ وَقْت ہوتاہےجب مرنے والےکی اُمّیدیں دُنیااور دُنیاوالوں سے ختم ہوجاتی ہیں اور پھر حسرت و ندامت اسےچاروں جانب سے گھیر لیتی ہے۔ [1]

تصورِ موت کا طریقہ

 پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہماری دنیاوی اوراُخروی زندگی کے درمیان موت کی گھاٹی حائل ہے ، جس دن ہم نے یہ گھاٹی عبور کر لی کبھی واپسی نہ ہوگی ۔ لہٰذا موت


 

 



[1]       احیاءالعلوم ، ۵ / ۵۱۱تا۵۱۲ ، مترجم  ملتقطاً