Book Name:Quran-e-Pak Aur Naat-e-Mustafa

یَارَسُوْلَ اللہِ اُنْظُرْحَالَنَا

جب حضورِاقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔’’رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہیارسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کامعنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بُری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہُ عَنْہُیہودیوں کی اِصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سُن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سُناتو اس کی گردن اُڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں،اس پر آپ رنجیدہ ہو کرسرکارِدوعالمصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرما دی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ’’اُنۡظُرْنَا ‘‘کہنے کا حکم ہوا ۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۱/۴۴-۴۵، الجزء الثانی، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۱/۶۳۴، تفسیر عزیزی(مترجم)۲/۶۶۹، ملتقطاً)

چنانچہ پارہ 1،سُوْرۂ بقرۃ،آیت نمبر104میں اِرشادہوتاہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ۱، البقرۃ:۱۰۴)                                            

ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والوراعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سُنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔

اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیر صراطُ الجنان میں درج کچھ علمی فائدے پیشِ خدمت ہیں: