Book Name:Ilm-e-Deen Kay Fazail

اَہَمِّیَّت کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ گُلشنِ اسلام کو آباد رکھنے میں اناللہ والوں کااہم کردار ہے۔

اسی طرح اَمِیْرُالمؤمنین حضرت سَیِّدُناعمر بن عبدُالعزیز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا نہایت عمدہ انتظام کیاکہ بلند مرتبے والے مُحَدِّث حضرت سَیِّدُناصالِح بن کیسان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ جو خود ان کے بھی اُستادتھے انہیں اپنی اولادکا اُستاد مقررفرمایا۔(التحفۃ اللطیفۃ فی تاریخ المدینۃ الشریفۃ، ۱/۲۳۳)

حُجَّۃُ الْاِسْلام حضرت سَیِّدُنا امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ کے والدِ محترم کے بارے میں منقول ہے: وہ خود اگرچہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن عِلْمِ دین کی اَہَمیَّت کا احساس رکھنے والے تھے،ان کی دلی خواہش تھی کہ دونوں صاحبزادے محمد غزالی اور احمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِما  عِلْمِ شریعت اور عِلْمِ طریقت کے زیور سے آراستہ ہوں۔اسی مقصد کےلیے انہوں نے اپنے صاحبزادوں کی تعلیم وتربیت  کیلئے کچھ  مال و اسباب بھی جمع کررکھا تھا،جوان دونوں سعادت مند بیٹوں کے عِلْم حاصل کرنے کے زمانے میں انہیں بہت کام آیا۔(اتّحاف السادۃ،مقدمۃ الکتاب،۱/۹ملخصاً)

اسی طرح  ہمارے غوثِ پاک حضرت سَیِّدُناشیخ عبدالقادرجِیْلانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہبچپن میں ہی اپنی والِدۂ مُحْتَرَمہ کی اجازت سے عِلْمِ دِین  حاصل کرنے کے لیے بغداد پہنچے تھے۔(بہجۃالاسرار،ذکر طریقہ، ص۱۶۷ ملخصا)

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ بھی بچپن ہی سے عِلْمِ دِین سیکھتے رہے یہاں تک کہ  ساڑھے چارسال کی ننھی سی عمرمیں قرآنِ کریم ناظِرہ مکمَّل پڑھنے کی نعمت سے فیض یاب ہوئے اور صِرف تیرہ(13) سال دس ماہ چار دن کی عمر میں تمام رائج شدہ عُلُوم اپنے والدِماجد حضرت مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ  سے حاصل  کرکے سَنَدِ فراغت حاصِل کرلی۔ (فیضانِ اعلیٰ حضرت،ص۸۵،۹۱)