Book Name:Shuhada-e-Ohud ki Qurbaniyan

کے ہاں قِیام فرمایا اور لوگوں کو قرآنِ پاک پڑھانے لگے  ۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ دیگر لوگوں کے پاس جا کر انہیں اِسْلَام کی دَعْوَت بھی دیا کرتے ، یہاں تک کہ انصار کے اکثر گھرانے اور سردار و شُرَفا اِسْلَام لے آئے۔پھر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ واپَس بارگاہِ رِسَالَت میں لوٹ گئے۔(حلية الاولياء،مصعب بن عمیر الداری،۱/۱۵۲،رقم:۳۳۹)اور قاری کے نام سے مشہور ہوگئے۔( معجم کبیر،۲۰/۳۶۴،حدیث:۸۴۹)

یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآں عام ہوجائے   تلاوت کرنا صبح و شام میرا کام ہو جائے  

اے عاشقانِ صحابہ و اہلِ بیت!سُبْحٰنَ اللہ!سُنا آپ نے!شہیدِ اُحد حضرتِ سَیِّدُنا مُصْعَبْ بن عُمَیر کس قدر خوش نصیب صحابی ہیں کہ جنہیں سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے لوگوں کو  قرآنِ کریم سکھانے کے لئے منتخب فرمایا،سفر اگرچہ لمبا  تھا مگر چونکہ حکمِ رسول تھا،لہٰذا آپ نے فرمانِ رسول پر لبیک کہتے ہوئے اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر لوگوں کو فیضانِ قرآن سے فیض یاب فرمایا حتّٰی کہ اپنے زمانے میں قاری مشہور ہوگئے۔حضرتِ سَیِّدُنا مُصْعَبْ بن عُمَیر کے کردار کو سامنےرکھتے ہوئے ہم میں سےہر ایک سوچے کہ  میرے اندر دِین کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ کس قدر بیدار ہے؟غور کیجئے!یہ حضرات تو انتہائی کم وسائل ومشکل حالات میں سفری سہولیات اور دیگر ضروریات مُیَسّر نہ ہونے کے باوجود بھی انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ مسلمانوں کو دُور دَرازکے علاقوں میں قرآنِ کریم سکھانے کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے،مگر افسوس!آج کے مسلمانوں میں اب  اس طرح کا جوش و جذبہ دَم توڑتا نظر آرہا ہے۔ افسوس!صدیاں گزرجانے کے باوجود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جسے دیکھ کر بھی قرآنِ کریم پڑھنا نہیں آتا،جن کوآتا بھی ہے تو اَکْثَرِیَّت کے قواعد و مخارج  درست نہیں،ہمارے اپنے گھر،گلی،محلے اور علاقے میں بھی کتنے ایسے مسلمان ہوں  گے جن کواور توبہت کچھ آتاہوگالیکن قرآنِ کریم پڑھنا نہیں  آتا  ہوگا۔مگر آہ!ہمیں