Book Name:Shuhada-e-Ohud ki Qurbaniyan

شفقت، خاموشی اور حکمتِ عملی  سے ہی کام لینا چاہئے،جیسا کہ

       حضرتِ سَیِّدُنا امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نَقل فرماتے ہیں:کسی بُزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کا مَدَنی پھول عنایت کرتے ہوئے فرمایا:نیکی کی دعوت دینے والے کو چاہئے کہ اپنے آپ کو صَبْر کا عادی بنائے اور اللہ کریم کی طرف سے نیکی کی دعوت کے ملنے والے ثواب پر یقین رکھے۔جس کو ثواب کا کامِل یقین ہو اُس کو اِس مبارَک کام میں تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔(احیاء العلوم،۲ /۴۱۰)

ٹُوٹے گو سر پہ کوہِ بَلا صَبْر کر                                            اے مبلغ نہ تُو ڈگمگا صَبْر کر

لب پہ حرفِ شکایت نہ لا صَبْر کر                                      ہاں یہی سُنّتِ شاہِ ابرار ہے

(وسائلِ بخشش مرمم،ص۴۷۳)

مختصروضاحت:امیرِاہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ تربیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:بالفرض  اگر  تجھ پر بلاؤں کے پہاڑ بھی ٹُوٹ پڑیں تب بھی تجھے چاہئے کہ تُو صَبْر سے کام لے۔اے مُبَلّغ!مصیبتوں سے مت گھبرااورصَبْر سے کام لے۔جب بھی کوئی مصیبت یا پریشانی آجائےتو حرفِ شکایت زبان پر لانے کے بجائے صَبْر سے کام لینا،اس لئے کہ مصیبتوں پر صَبْر کرنا تو مکی مدنی سلطان،سرورِ ذیشان صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیاری پیاری سُنّت ہے۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                             صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد

      پیارے پیارے اسلامی بھائیو!قرآنِ کریم کی تعلیم  حاصل کرنا اور اسے دوسروں کو سکھانا یقیناً بہت بڑی نیکی کا کام ہے۔چنانچہ حضورنبیِّ رحمت، شفیعِ اُمّت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافرمانِ دلنشین ہے:خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُراٰنَ و َعَلَّمَہٗ یعنی تم میں بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا ۔(بخاری،کتاب فضائل القرآن،باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ،۳ / ۴۱۰،حدیث: ۵۰۲۷)