Book Name:Faizan-e-Ashaab-e-Suffa

کچھ کھجوریں ایک طَباق میں رکھ کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:یہ صدقہ ہے، قبول فرمالیجئے!پیارے آقاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَنے صحابَۂ کرام سے فرمایا:تم کھالو،اور خود تناول نہ کیا ۔ یوں  ایک نشانی تو پوری ہوئی ، ایک بار پھر کھجوروں کا خوان لے کر پہنچے اور عرض گزار ہوئے کہ یہ تحفہ  ہے، قبول فرمالیجئے ۔ رحمتِ عالم،نورِ مجسمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَنےصحابَۂ کرام کوکھانے کا اشارہ کیا اور خود بھی تناول فرمایا ۔یوں دوسری نشانی بھی پوری ہوئی،اس درمیان میں آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُنےسرکارِ دوعالمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکےدونوں شانوں کے درمیان’’مُہر ِنَبُوَّت‘‘کو بھی دیکھ لیا، اس لئے فوراًاسلام قبول کر لیااور اُس دَر کے غلام بن گئے جس پر شاہَوں کے سَر جھکتے ہیں۔ (طبقاتِ ابنِ سعد  ، ۴/۵۸ ملخصاً)غزوۂ خندق میں خندق کھودنے کا مشورہ بھی آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ہی کا تھا ۔(طبقاتِ ابنِ سعد، 2/51)آپرَضِیَ اللہُ عَنْہُکوسرورِ کونین،نانائے حسنین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَسےوالہانہ محبت تھی،اپنے وقت کا بیشتر حصہ دربار ِرسالت میں گزارتے اور فیضانِ نبوی سےبَہرہ مَند ہوتے،اِس کےبدلےمیں بارگاہ ِ رسالت سےسَلْمَانُ الْخَیْر۔(سنن الکبری للنسائی، ۶/۹، حدیث: ۹۸۴۹) اورسَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْت(سلمان ہمارے اَہلِ بیت سےہیں)۔(مسند بزار، ۱۳/۱۳۹، حدیث: ۶۵۳۴) جیسی خوشخبری سننےکی سعادت پائی۔

ایک اور مقام پراس بشارتِ عظمیٰ سےسرفراز ہوئے کہ جنّت”سلمان فارسی“کی مشتاق ہے۔

(ترمذی،کتاب المناقب، باب مناقب سلمان فارسی ۵/۴۳۸، حدیث:۳۸۲۲)

       حضرت سیّدنا سلمان فارسیرَضِیَ اللہُ عَنْہُ کےصدقے ہم پربھی کرم ہواورہم بھی داخلِ جنّت کیے جائیں۔آئیے!دُعا کرتے ہیں!۔

اللہ کرم اتنا گنہگار پہ فرما

جنت میں پڑوسی مرے آقا کا بنادے