Book Name:Huzur-e-Pak Ki Ummat Ki Khasusiyaat

مثال،بی بی آمنہ کے لعل صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیاری اُمت کو شب قدر جیسی مبارک نعمت  سے سرفراز فرمایا۔یاد رہے!غمِ اُمّت کا یہ پہلا واقعہ نہیں،آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنی امت سے اتنی محبت ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَنےکئی مواقع پر گناہگارانِ  امت کو یادفرمایا،چنانچہ

دنیا میں  جَلوہ اَفروز ہوتے ہی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سَجدہ فرمایا اور ہونٹوں  پر یہ دُعا جاری تھی:رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِی یعنی پَرْوَرْدَگار! میری اُمَّت میرے حوالے فرما۔(فتاویٰ رضویہ،۳۰/۷۱۲)

امام زُرقانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نَقْل  فرماتے ہیں :’’اُس وَقْت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُنگلیوں  کو اِس طرح اُٹھا ئے ہوئے تھے جیسے کو ئی گِرْیَہ وزاری کرنے والا اُٹھا تا ہے۔(زرقانی علی المواہب، ولادتہ وعجائب ومارات ۔۔۔الخ  ،۱/ ۲۱۱)

رَبِّ ھَبْ لِی اُمَّتِی ‘‘کہتے   ہوئے   پیدا   ہوئے    حق  نے فرمایا کہ  بخشا ’’الصَّلٰوۃُ والسَّلام

 (قَبالَۂ بخشش ،ص۹۴)

اِسی طرح رَحمتِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سفرِمِعراج پر روانگی کے وقت اُمَّت کے عاصِیوں  کو یاد فرما کر آبدیدہ ہوگئے، دیدارِ جمال خداوندی اور خصُوصی نواز شات کے وقت بھی گُنہگارانِ اُمَّت کو یاد فرمایا۔ (بخاری، کتاب التوحید،باب قولہ تعالٰی(وکلم اللہ موسٰی تکلیمًا۴/ ۵۸۱، حدیث:۷۵۱۷مفہوماً)عُمر بھر (وقتافوقتا) گُنہگارانِ اُمَّت کے لیے غمگین رہے۔(مسلم، باب دعاء النبی لامتہ،…الخ، ص۱۰۹،حدیث:۲۰۲ مفہومًا) جب قَبر شریف میں  اُتارا لبِ جاں  بخش کو جُنْبِش تھی ،بعض صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوان نے کان لگا کرسُنا، آہستہ آہستہ اُمَّتِی(میری اُمَّت)فرماتے تھے۔ قِیامت میں  بھی اِ نہیں   کے دامن میں  پناہ ملے گی، تمام اَنبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے”نَفْسِی نَفْسِی اِذْھَبُوْا اِلٰی غَیْرِی(یعنی آج مجھے اپنی فکر ہے کسی اور کے پا س چلے جاؤ )کہیں گے اوراس غَمْخوارِ اُمَّت کے لب پر ’’یَارَبِّ اُمَّتِی اُمَّتِیْ‘‘(اے رَبّ !میری اُمَّت کو بخش دے ) کا شور ہوگا۔(مسلم،باب ادنی اہل الجنّۃ منزلۃ فیہا، ص۱۰۵،۱۰۶ ، حدیث:۱۹۴مفہوماً)

جو نہ بھُولا ہم غریبوں  کو رضا      ذِکر اُس کا اپنی عادت کیجئے

(حدائقِ بخشش ،ص۱۹۸)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! سنا آپ نے!رحمتِ کونین،نانائے حسنین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ گناہگار اُمّت سے کتنی مَحَبَّت و اُلفت فرماتے ہیں اور آپ کو اپنی اُمّت کا کتنا خیال رہا۔جبکہ دوسری جانب  اگر ہم اس امت کے حالِ زار کا جائزہ لیں تو یہ دل خراش حقیقت(Reality) سامنے آئے گی کہ اُمّت مسلمہ کی اکثریت اب اپنے اس محسن و مہربان آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احسانات اور فرامین کو بُھلا کرفرائض  و واجبات کی ادائیگی سے غافل ہوکرنفس و شیطان کی پیروی میں مشغول ہے،قرآنِ کریم کے ارشادات کو بُھلا بیٹھی ہے، علم و علما کی اہمیت سمجھنے سے محروم دکھائی دیتی ہے،عاشقانِ رسول سے رشتہ توڑ کر بُری صحبتوں کی شیدائی ہوگئی ہے،اپنے بزرگوں کی تعلیمات کو بالکل فراموش کرچکی ہے، سنتوں سےمنہ موڑ کر فیشن پرستی کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے،غیر مسلموں اور فاسق و فاجر لوگوں کی نقالی کرنے