Book Name:Jhoot ki Tabah Kariyaan

غیر سَیِّدکاسادات بننا:

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!  اندازہ لگائیے!   اپنی شُہرت و عزّت کی خَواہش کرنا کیسا  خَطَرناک مَرَض ہے۔  اسی مَرَض کا شِکار بَعْض اَفراد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ لوگوں سے عزّت پانے  کیلئےجھوٹ کا سَہارالیتےہوئے اپنی ذات  بدلنے سے بھی  گُریز نہیں کرتے۔  برِّصغیر پاک و ہِند میں ”سَیِّد“کا لفظ ایسے لوگوں کے لیے  بولا جاتا ہے،  جن کا سِلْسِلۂ نَسَب اپنے والدکی طرف سے حُضُورِ اَنْور،  شافعِ مَحْشر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جاملتا ہو۔   ہمارے ہاں عزت و شہرت اور مقام و منصب کو پانے  کیلئے  بَعْض غَیْر سَیِّد اَفراد بھی اپنے آپ کو”سادات“کہلواتے ہیں، حالانکہ یہ بات حَقِیْقَت سے بہت دُور ہوتی ہے۔ 

یاد رہے!  اپنے حَقِیقی باپ کو چھوڑ کرکسی دوسرے کو اپنا باپ بتانا یا اپنے خاندان ونَسَب کو چھوڑ کر کسی دوسرے خاندان سے اپنا نَسَب جوڑناحَرام اور جَنَّت سے مَحروم ہوکردوزخ میں لے جانے والا کام ہے ۔   اس بارے میں بڑی سَخْت وعیدیں حدیثوں میں آئی ہیں چُنانچِہ

حضرت سَیِّدُنا عبدُ اللہ بن عَمْروْ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسےمَرْوِی ہے: رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:   جوشَخْص اپنے باپ کے غَیْرکو اپنا باپ بنانے کا دعویٰ کرے۔   وہ جَنَّت کی خُوشبوبھی نہیں سُونگھے گا، حالانکہ جَنَّت کی خُوشبُو پانچ سو  (500) بَرَس کی راہ سے پائی جائے گی۔     (الترغیب والترہیب،  کتاب النکاح ، الترہیب أن ینتسب...الخ،  ۳ / ۵۲،  الحدیث: ۵)  

دو جہاں کے سُلطان، سَروَرِ ذیشان، محبوبِ رَحمٰن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عبرت نِشان ہے:  جو اپنے باپ کے غَیر کو اپناباپ بنانے کا دَعْویٰ کر ے،  حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے،  تو اس پر جنَّت حَرام ہے۔      (بُخارِی ، ۴  / ۳۲۶، حدیث: ۶۷۶۶)  

شیخ ِ طریقت ، اَمِیْرِاہلسنت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مَولاناابُوبلال  محمد الیاس عطّار قادِری رَضَوی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں:  یاد رکھئے!  ضَروری دستاویزات ،  شَناختی کارڈ،  پاسپورٹ اور شادی کارڈ وغیرہ میں بھی حقیقی باپ کی جگہ منہ بولے باپ کا نام لکھوانا حَرام اور جہنَّم میں لے جانے والاکام ہے۔   طلاق شُدہ یا بیوہ عَورتیں بھی اپنے اگلے گھر کے بچوں کو اُن کے حَقِیقی باپ کےمُتَعَلِّق  اندھیرے میں رکھ کر آخِرت کی بربادی کا سامان نہ کریں۔   عام بول چال میں کسی کو ابّاجان کہہ دینے میں حَرَج نہیں جبکہ سب کو مَعلُوم ہو کہ یہاں”جسمانی رشتہ “مُرادنہیں۔   ہاں!  اگر ایسے ”ابّا جان“ کوبھی کسی نے سَگا باپ ظاہِر کِیا تو گنہگار و عَذابِ نار کا حَق دار ہے۔ 

شَیْخُ الحدیث، حضرت مَولانا عَبْدُالْمُصْطَفٰے اَعْظَمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: آج کل بے شُمار لوگ اپنے آپ کو صدّیقی و فارُوقی و عثُمانی و سَیِّدکہنے لگے ہیں! اِنہیں سوچنا چاہیے کہ وہ لوگ ایسا کرکے کتنے بڑے  گناہ کے دَلْدَل میں پھنسے ہوئے ہیں۔  ربِّ