Book Name:Jhoot ki Tabah Kariyaan

سَخْت گنہگار ہو رہا ہوتاہے،   وہیں اِن جھوٹے جُملوں سے بچّے کی اَخلاقیتَرْبِیَت  پربھی گہرا اَثَر پڑتا ہے،   جس کے نتیجے میں وہ بچپن ہی سے سچ سننے اور سچ بولنے سے مَحروم ہو کر جھوٹ سننے اور جھوٹ بولنے کا عادی بن جاتا ہے۔ایسے ماحول میں پَروَرِش پانے والابچّہ جیسے ہی تھوڑاسمجھدارہوتا ہےتوبات بات پہ جھوٹ بولنے لگتا ہے،  لہٰذا ہمیں اپنے بچّوں سے بھی جھوٹ  نہیں بولنا چاہیے ۔

حضرت سَیِّدُنا عبد اللّٰہ بن عامِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے: مُصْطَفٰے جانِ رَحْمت،   شمعِ بزمِ ہدایت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے مَکان میں تشریف فرماتھے۔میری ماں نے مجھے بُلایا کہ آؤ!  تمہیں کچھ دُوں گی۔حُضُورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان سے فرمایا: کیا چیز دینے کا اِرادہ ہے؟  اُنہوں نے عَرْض کی: اسےکَھجوردوں گی۔اِرْشاد فرمایا: اگر تُو کچھ نہیں دیتی تو یہ تیرے ذِمّے جُھوٹ لِکھا جاتا۔   ( ابوداوٗد: ۴ / ۳۸۷،  حدیث ۴۹۹۱)  

                                                                                                                                                                                                                    صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! بیان کردہ حدیثِ پاک سےیہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ بچّوں کے ساتھ بھی جُھوٹ بولنے کی شرعاً اِجازت نہیں،   لہٰذا آج تک جس نے ایسا کیا اُسے فَوراً سچّی تَوبہ کرنی  چاہیے اور ہمیشہ سچ کی عادت اپنانی چاہیے۔خُود بھی جُھوٹ سے بچئے  اور اپنی اَولاد کو بھی اس بُری عادت سے بچانے کا سامان کیجئے۔اس کیلئے شیخِ طریقت،   اَمِیرِ اہلسنّت،   بانیِ دعوتِ اسلامی،  حضرت علّامہ مَولانا ابُو بلال محمد الیاس  عطّار قادِری رَضَوی ضِیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے 36 صفحات پرمشتمل رِسالے جُھوٹا چور  کا خُودبھی مُطالَعہ کیجئے اور اپنے بچّوں کو بھی یہ رِسالہ پڑھنے کی تَرغِیب دلائیے۔اِنْ شَآءَ اللہ جُھوٹ  بولنے کی عادت سے جان چُھوٹ جائے گی۔

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                        صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

جُھوٹے القابات لگانا

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! ہمارے ہاں چند ایسی اِصْطِلاحات ہیں،   جو کسی خاص مَنْصب یا خاص ڈِگْری (Degree)  پر دَلالت کرتی ہیں،  لیکن دھوکہ،   فریب اوربہت زِیادہ جُھوٹ بولنے کے سبب ،  اِن اِصْطِلاحات کو ایسے لوگ بھی اِسْتِعْمال کرتے نَظَرآتے ہیں،  جن کا اِن ڈِگریوں اورعُہدوں سے دُوردُورکا بھی تَعَلُّق نہیں ہوتا،  اگر کچھ تَعَلُّق  اور نِسبَت ہو بھی  جائے،   تب بھی یہ اَفراد اِن اِصْطِلاحات کو اِسْتِعْمال کرنے کے مَجاز نہیں ہوتے۔عُمُوماً وہ لوگ کہ جنہیں اَدْوِیات کا تھوڑا بہت علم ہوجائےیا جو بطور ڈِسْپِنْسَر  (Dispenser) ،  یا کسی کلینک (Clinic) میں بطور ہیلپر (Helper یعنی مُعاوِن)  کام کر چکے ہوں،   تو وہ بھی اپنے آپ کو نہ صرف”ڈاکٹر (Doctor) ‘‘کہتےدِکھائی دیتے  ہیں بلکہ اپنے لیے’’ڈاکٹر‘‘کا لَفْظ کہلوانا پسند بھی کرتے ہیں،   حالانکہ’’ڈاکٹر‘‘ کا لَفْظ ایک خاص ڈِگْری کی نِشاندہی کرتا ہے اوراسے وہی شَخْص اِسْتِعْمال کر سکتا ہے کہ جو اس کااَہْل بھی ہو۔اِس کے عِلاوَہ کسی اور کااسےاِسْتِعْمال کرنا قانوناً جُرْم اور  شَرْعاً  جُھوٹ کہلاۓ گا۔  اِسی طرح بعض اَفْراد کو جب چندجَڑی  بُوٹیوں کا علم ہو جاۓ یا عِلْمِ طِبْ کےبعض نُسْخے پتہ چل جائیں تو وہ بھی اپنے نام کے ساتھ”حکیم صاحب“کہلوانے  اور لکھنے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔حالانکہ یہ سَراسَرجُھوٹ اور دھوکہ ہے۔اسی طرح  جھوٹ کا بازار اس قَدر گرم ہے کہ بعض علم سے خالی لوگ بھی عُلَما کی صَفْ میں گھُسنے سے دَریغ نہیں کرتے ۔ہمارے یہاں لفظِ”مولانا“دِین کا علم رکھنے والوں کیلئے بولا جاتا ہے،  لیکن دیکھا گیا ہے کہ جاہِل لوگ بھی  صرف اسی لفظ کونہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ”عَلَّامَہ وفَہَّامَہ (بہت زیادہ علم رکھنے والا ،  بہت سمجھ بُوجھ رکھنے والا ) وغیرہ جیسے الفاظ اپنے لیے اِسْتِعْمال کرنے میں ذرا نہیں ہِچکچاتے ۔حالانکہ ایسا کرنا سَراسَر جھوٹ ہے۔