Book Name:Jhoot ki Tabah Kariyaan

جہنَّم میں داخلے کی وَعِید سنائی ہے۔  بَیان  کردہ صُورتوں کے عِلاوَہ بھی  دیگر کئی صُورتوں میں جھوٹ بولا جاتا ہے ۔  جیسےجھوٹی تَعْریفیں کرنا،   جھوٹے خَواب سنانا،  جھوٹی وَکالت کرنا،  جھوٹے وعدے کرنا،  جھوٹی خَبَریں پھیلانااور یکم اپریل پر جُھوٹ بول کر اپریل فُول مناناوغیرہ،  اَلْغَرَض! بے شُمار صُورَتوں میں جھوٹ ایک ناسُور (ہمیشہ رہنے والے زخم) کی طرح ہمارے مُعاشَرے میں پھیلتا جارہا ہے۔جھوٹ اور اس جیسی دیگر ظاہِری وباطِنی بیماریوں سے بچنے کیلئے عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے  مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے،  زَبان کوغَیْرضَروری باتوں سے بچانے کیلئے زَبان کی حفاظت کیجئے،   ہرہفتے مَدَنی مُذاکرے اورسُنَّتوں بھرے اِجتِماع میں شِرکت کو اپنامعمول بنالیجئے،   مَدَنی انعامات پر عَمَل اور عاشِقانِ رسول کے ساتھ ہر ماہ تین (3) دن کے مَدَنی قافلے  میں سَفَر کیجئے،  اِنْ شَآءَ اللہ دُنیا وآخِرت کی ڈھیروں بھلائیاں نَصِیب ہوں گی۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                               صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! یاد رکھئے !  جھوٹ ناجائز وگناہ ہے ،   مگر بعض صورتیں ایسی بھی ہیں کہ جن میں کسی حاجت و ضرورت کےپیشِ نظرشریعت نے جھوٹ بولنے کی اجازت بھی دی ہےاور اس میں گناہ نہیں  البتہ جس اچھے مقصد کو سچ بول کر حاصل کیا جاسکتاہو  اور جھوٹ بول کر بھی،  تو اُس کو حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بولنا حرام ہے،  اگراچھامقصد جھوٹ سے حاصل کرسکتا ہو اور سچ بولنے میں حاصل نہ ہوگاتواب بعض صورتوں میں جھوٹ بولنا بھی جائز بلکہ واجب ہوجاتاہے،  جیسے (1)  کسی بے گناہ کو ظالم شخص قتل کرنا چاہتا ہے یا تکلیف دینا چاہتا ہے اور  وہ اس کے  ڈرسے چھپا ہوا ہے،   ظالم نے کسی سےپوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ وہ اگرچہ جانتا ہو توکہہ سکتا ہےکہ مجھے معلوم نہیں (2) یا کسی کی امانت اس کے پاس ہے،   کوئی اسے چھیننے کیلئے پوچھتا ہے کہ امانت کہاں ہے ؟ یہ انکار کرسکتا ہے کہ میرے پاس اس  کی امانت نہیں۔  (ردالمحتار،  کتاب الحظر والإباحۃ،   فصل فی البیع،  ج۹،   ص۷۰۵)  (3) اسی طرح دو مسلمانوں میں اِختلاف ہے اور یہ ان دونوں میں صُلح کرانا چاہتا ہے،  تو ایک کے سامنے یہ کہہ دے کہ وہ تمھیں اچھا جانتا ہے،   تمھاری تعریف کرتا ہے یا اس نے تمھیں سلام کہا ہے اور دوسرے کے پاس بھی اسی قسم کی باتیں کرے تا کہ دونوں میں دشمنی کم ہوجائے اور صلح ہوجائے۔   (4)  (یوں ہی)  بیوی  کو خوش کرنے کے لیے کوئی بات خلافِ واقع  کہہ دے (تو بھی جھوٹ نہیں) ۔   (الفتاوی الھندیۃ،  کتاب الکراھیۃ،   الباب السابع عشر فی الغناء،  ج۵،   ص۳۵۲)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عمامہ باندھنے کی سُنتیں اور آداب

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بَیان کو اِخْتِتام کی طرف لاتے ہوئےآئیے! شیخِ طریقت،   امیرِاہلسنَّت،  بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رسالے’’163 مَدَنی پُھول‘‘سے عمامہ باندھنے کے مَدَنی پھول سُنتے ہیں۔پہلے دو  (2) فرامینِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ مُلاحظہ ہوں:  (1) عمامے کے ساتھ دو رَکعت نَماز بغیر عمامے کی70رَکعتوں سے اَفضل ہیں۔   (فِرْدَوْس الْاخَبار،  ۲ / ۲۶۵ حدیث: ۳۲۳۳)   (2) عمامے عَرَب کے تاج ہیں تو عِمامہ باندھو تمہارا وقار بڑھے گا اور جو عمامہ باندھے اُس کے لئے ہر پیچ پر ایک نیکی ہے۔   (کَنْزُ الْعُمّال،  ۱۵ / ۱۳۳،   رقم:  ۴۱۱۳۸)  ٭عمامے کے شِملے کی مقدارکم از کم چار اُنگل اور زیادہ سے زیادہ (آدھی پیٹھ تک یعنی تقریباً) ایک ہاتھ (ہو)  (فتاویٰ رضویہ،  ۲۲ / ۱۸۲)  (بیچ کی انگلی کے سرے سے لیکر کُہنی تک کا ناپ ایک ہاتھ کہلاتا ہے) ٭عمامہ قبلہ رُو کھڑے کھڑے باندھئے۔   (کَشْفُ الاِلْتِباس،  ص۳۸)   ٭عمامے میں سُنت یہ ہے کہ ڈھائی گز سے کم نہ ہو،   نہ چھ گز سے  زیادہ اور اس کی بندِش گنبد نُما ہو۔     (فتاویٰ رضویہ،   ۲۲ / ۱۸۶)