Book Name:Jhoot ki Tabah Kariyaan

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سچ اعلیٰ ترین انسانی صفات میں سے ایک ہے،   سچ بولنے والا اس کی برکت سےہمیشہ  کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ اس کےبرعکس جھوٹ بولنےوالا،  جھوٹ بول کر ہمیشہ اِدھر اُدھر بھٹکتا رہتا ہے۔  سچ بولنے والےکو اللہ  پاک کا شکر بجا لانے کی توفیق ملتی ہے جبکہ جھوٹےآدمی کی  اگرکوئی  خواہش پوری نہ ہوتو وہ شکوہ شکایت پر اُتر آتا ہے۔  سچ انسان کی بُلند ہمتی،   اعلیٰ سوچ،   بُزرگی،  تقویٰ اور صبر کی علامت بنتا ہے جبکہ جھوٹ انسان کواللہ پاک سے دُورکرنے کا سبب بنتاہے۔آج کے بیان  میں  ہم جھوٹ کی تباہ کاریوں  اورسچ کےفضائل وبرکات کے بارے میں سنیں گے ،  آئیے!  اس سے متعلق ایک حکایت سنتے ہیں ،  چنانچہ

جھوٹ بولنا چھوڑ دو!

ایک شَخْص سرکارِ نامدار،   دو عالَم کے مالِک و مُختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خِدْمت میں حاضِر ہوا اور عَرْض کی: میں آپ پر اِیمان لانا چاہتا ہوں مگر میں شَراب نَوشی،  بَدکاری ،   چوری اور جُھوٹ سے مَحَبَّت رکھتا ہوں ا ور لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاِن چیزوں کو حَرام کہتے ہیں،  جبکہ مجھ میں اِن تمام چیزوں کےچھوڑنے کی طاقت نہیں ہے،   اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِس بات پر راضی ہوجائیں کہ میں اِن میں سے کسی ایک چیز کو چھوڑدوں تو میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر اِیمان لانے کو تَیّار ہوں۔نبیِّ رحمت،  مالکِ کَوثر و جنّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنےاِرْشاد فرمایا: تم جُھوٹ بولناچھوڑدو! اُس نے اِس بات کو قَبول کرلیااورمُسَلمان ہوگیا،  جب وہ نبیِّ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس سے گیا تو اُسےشراب پیش کی گئی،  اُس نےسوچا اگرمیں نےشراب پی لی اور نبیِّ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے شراب پینے کےمُتَعلِّق پُوچھا اورمیں نےجُھوٹ بول دیا  تو وعدہ خلافی ہوگی اور اگر میں نے سچ بولا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مجھ پرحَدقائم کردیں گے،   یہ سوچ کر اُس نے شراب کوچھوڑدیا،   پھر اُسے  بَدکاری کرنے کا موقع مُیَسَّر آیا تو اُس کے دل میں پھر یہی خَیال آیا،   لہٰذا اُس نے اِس گُناہ کو بھیچھوڑدیا،   اسی طرح چوری کا  مُعامَلہ ہوا،   پھر وہ رسولِ اکرم،   نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خِدْمت میں حاضِر ہوا اور کہنے لگا! یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! آپ نے بہت اچھا کِیا کہ جب میں جُھوٹ بولنےسے بچا تو مجھ پر تمام گُناہوں کے دروازے بند ہوگئے،   (اِس کے بعد وہ شَخْص تمام گُناہوں سے تائب ہوگیا۔   )   (تفسیرِ کبیر،  ۶  / ۱۶۸)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! آپ نےسنا کہ جب ایک شَخْص نےجُھوٹ کوچھوڑکر سچ بولنے  کا پکااِرادہ کر لیاتو وہ کئی کبیرہ گُناہوں سے باز آگیا۔معلوم ہوا! جُھوٹ تمام گُناہو ں کی جَڑ ہے۔تمام بُری عادتوں  میں سب سے بُری عادت ہے۔  جُھوٹ زبان سے بولا جاۓ خواہ عمل سے ظاہِر کِیا  جاۓ  بہر صُورت قابلِ مَذَمَّت ہے۔جُھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کےخلاف کوئی بات کی جائے۔  (حدیقہ ندیہ ،  ج۲،  ص ۴۰۰) یعنی اگر کسی نے پُوچھا: آپ ہفتہ وار اجتِماع میں تشریف لائے تھے؟  اور جواباً کہہ دیا: جی ہاں!  (حالانکہ شِرکت نہیں کی) ،  کیاآپ  نے کھانا کھا لیا ہے؟  اور جواباً کہہ دیا:  جی ہاں!  (حالانکہ کھانا نہیں کھایا تھا) تو یہ جُھوٹ ہوا،   کیونکہ حقیقت کے خِلاف ہے۔  جھوٹ بولنا ایسی بُری عادت ہے کہ ہر مذہب میں اِسے بُرائی سمجھا جاتاہے ،   ہمارے پیارے دینِ اسلام نے اِس  سے بچنے کی بہت تاکید کی ہے،  قرآنِ پاک نے  کئی مقامات پر اس کی مَذَمَّت بَیان  فرمائی اور جھوٹ بولنے والوں پر خُدا کی لَعْنت  بھی ہے ۔

جھوٹ اور آیاتِ کریمہ

چُنانچہ پارہ17سُوْرَۃُ الْحَج کی آیت نمبر 30 میں اِرْشاد ہوتا ہے ۔