Book Name:Jhoot ki Tabah Kariyaan

وغیرہ) کرنے کی ترغیب دلانا،  مَدَنی قافِلوں میں سفر کروانا،   اُن کے گھروں میں مَدَنی حلقے کی ترکیب کرنا،  اُنہیں مدرسۃُ المدینہ بالغان میں شرکت کروانا،  اُن کی خوشی،  غمی،  بیماری و فوتگی وغیرہ کے معامَلات میں شریک ہونا اور مشکلات میں مکتوبات و تعویذاتِ عطّاریہ کی ترکیب کرنا وغیرہ اِس مجلس کے مقاصِد میں شامل ہے۔اللہ کریم ”مجلس اِزدِیادِ حُبّ“  کو مزید ترقیاں عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الاَمِیْنصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ

                                                                                                                                                                           صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! اَلْحَمْدُلِلّٰہ سچ بولنےسے نہ صِرف اس دُنیا میں ڈھیروں بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں بلکہ بندہ جُھوٹ جیسے گُناہ میں مبُتلا ہونے سے بھی بچ جاتا ہے۔اس لیےہمیشہ سچ بولنے کی عادت بنائیے اورجُھوٹ بولنے کی عادت سے جان چُھڑائیے! ۔کیسی ہی مُشْکِل ہو،   بڑی سے بڑی مصیبت آن پڑے،  ہرگز ہرگز جُھوٹ کا سہارا نہ لیجئے اور سچ پر مَضبُوطی سے جَم جائیے ۔اِنْ شَآءَ اللہ دِین ودُنیا کی بھلائیاں نصیب ہوں گی۔آئیے! سچ بولنے  کی برکت پر مشتمل ایک اور ایمان افروز حکایت سنئے اوراس سے حاصل ہونے والے مدنی پھول چنئے،  چنانچہ

سچ بولنے سے جان بچ گئی

مَنْقول ہےکہ ایک دن حَجَّاج بن یُوسُف چند قَیدیوں کو قَتْل کروارہا تھا ،  ایک قَیدی اُٹھ کر کہنے لگا:  اے اَمیر! میرا تم پر ایک حق ہے ۔  حَجَّاج نے پُوچھا: وہ کیا؟  کہنے لگا:  ایک دن فُلاں شَخْص تمہیں بُرا بَھلا  کہہ رہا تھا،  تو میں نے تمہارا بچاؤکِیا تھا۔حَجَّاج بولا: اِس کا گواہ کون ہے؟ اُس شَخْص نے کہا:  میں اللہ پاک  کا واسِطہ دےکرکہتا ہوں کہ جس نے وہ گُفْتُگو سُنی تھی وہ گَواہی دے۔ایک دوسرے قَیدی نے اُٹھ کر کہا: ہاں! یہ واقِعہ میر ے سامنے پیش آیا تھا۔  حَجَّاج نے کہا:  پہلے قَیدی کو رِہا کردو،  پھر گواہی دینے والے سے پوچھا: تجھے کیا رُکاوٹ تھی کہ تُونے اُس قَیدی کی طرح میرا بچاؤ نہ کِیا؟  اُس نے سچّائی سے کام لیتے ہوئے کہا: ’’رُکاوٹ یہ تھی کہ میرے دل میں تمہاری پُرانی دُشمنی تھی۔‘‘ حَجَّاج نے کہا: اسے بھی رِہا کردو،   کیونکہ اس نے بڑی ہِمّت کے ساتھ سچ بولا ہے۔

  (وَفیات الاَعْیان لابن خلکان: ۲ / ۲۸،  ازجھوٹا چور،  ص: ۱۹ملخصا)  

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!  معلوم ہوا! سچ بولنے والا ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے،  کیوں کہ”سانچ کو آنچ نہیں‘‘یعنی سچ بولنے والے کو کوئی خطرہ نہیں،   وہ سَراسَر فائدے میں ہی ہے۔  مگر افسوس ! صَد افسوس!  آج ہمارے مُعاشَرے میں جُھوٹ ایک خطرناک مَرَض کی صُورت اِخْتِیار کرگیا ہے۔مرد ہو یا عورت،  چھوٹا ہو یا بڑا،   اَمِیر ہو یاغَرِیب،   وَزِیر ہو یا اُس کا مشیر،  افسر ہو یاکوئی چَوکیدار،   اَلْغَرَض! مُعاشَرے کا کم و بیش ہر فرد اِس مَرَض کا مریض نَظَر آتا ہے۔  بدقسمتی سے آج کل ایسے مَواقِع پر بھی جھوٹ کا سَہارا لےلِیاجاتا ہے،   جہاں سچ بولنے کی صُورت میں بھی کوئی دُنیوی نُقصان نہیں ہوتا۔

بچّوں سے جھوٹ بولنا

اِنہی صُورتوں میں سےا یک،  والِدَین کا اپنے کَم عُمربچوں  سے جُھوٹ بولنابھی ہے۔عُمُوماً دیکھا جاتا ہےکہ والِدَین چھوٹے بچّوں سے اپنی بات مَنْوانے کیلئے طرح طرح کے جُھوٹ بولتےہیں،  مثلاً اِدھرآؤ بیٹا! چیز لے لو،  پھر چلے جانا،   (حالانکہ کچھ دینا نہیں ہوتا) یا چھوٹے بچّے کو بہلانے کیلئےیہ کہنا،  کہ بیٹا چُپ ہوجاؤ ،  ہم تمہیں کِھلونے لاکر دیں  گے (جبکہ حقیقت میں ایسااِرادہ نہیں ہوتا) ۔اسی طرح بات نہ ماننے پر  انہیں ڈرانے کےلیے جُھوٹ بول دینا۔جیسے جلدی سو جاؤ ورنہ بلّی یا  کُتّا آجائے گاوغیرہ وغیرہ۔  یاد رکھئے! اس طرح کے  تمام جُملے جھوٹ کو شامل ہیں اورکہنے والا جہاں خود جھوٹ کے سَبَب