Book Name:Faizan e Sahaba o Ahle Bait

  -3حضرت امامِ حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ ایک بار اَمِیْرُالمؤمنین حَضرتِ سَیِّدُنا  عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے مجھ سے فرمایا  :  اے میرے بیٹے! میری تمنا (Wish)  ہے کہ آپ ہمارے پاس آیا کریں۔ چنانچہ میں ایک دن آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے گھر گیا، مگر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکےساتھ علیحدگی میں مصروفِ گفتگو تھے اور آپ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  دروازے پر کھڑے انتظار کر رہے تھے۔کچھ دیر انتظارکے بعد جب وہ واپس جانے لگے تو میں بھی لوٹ آیا۔بعد میں امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے میری ملاقات ہوئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا  : ’’لَمْ اَرَكَیعنی آپ ہمارے پاس دوبارہ آئے ہی نہیں؟“میں نے عرض کیا  : ’’اے امیرالمومنین!میں تو آیا تھا مگر آپ حضرت  امیرمعاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ مصروفِ گفتگو تھے۔آپ کے بیٹے عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے (میں نے سوچا جب بیٹے کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے مجھے کیسے ہوسکتی ہے) لہٰذا میں ان کے ساتھ ہی واپس چلا گیا۔‘‘ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا  : ”اَنْتَ اَحَقُّ بِالْاِذْنِ مِنْ عَبْدِ اللہِ ابْنِ عُمَرَ اِنَّمَا اَنْبَتَ فِيْ رُؤُوْسِنَااللہُ ثُمَّ اَنْتُم یعنی آپ میری اولاد سے زیادہ اس بات کےحق دار ہیں کہ اندر آجائیں۔ہمارے سروں پر یہ جو بال ہیںاللہ پاک کے بعد تم نے ہی تو اُگائے ہیں۔‘‘  (تاریخ ابن عساکر ،۱۴ /  ۱۷۶،ریاض النضرہ ،۱ /  ۳۴۱)  

کیا بات رضاؔ اُس چمنستانِ کرم کی

زَہرا ہے کلی جس میں حُسین اور حسن پُھول

 (حدائقِ بخشش مرمم،ص۷۹)

مختصر وضاحت  : اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس  شعر میں اپنے آپ کو مخاطب کرکے یوں ارشاد