Book Name:Farooq-e-Azam ka Ishq-e-Rasool

عَنْہُ کی مَـدِیْـنَهٔ مُـنَوَّرَہ زَادَہَااللہُ شَرَفًا وَّ تَعۡظِیۡمًا سےعِشق ومَحَبَّت اس بات سےبھی ظاہرہوتی ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مَـدِیْـنَهٔ مُـنَوَّرَہ میں وفات کی دُعا فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ بارگاہِ الٰہی میں اس طرح عَرْض کرتے:اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيْلِكَ وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یعنی اے اللہ پاک! مجھے اپنی راہ میں شہادت اور اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کے شہر میں مَوْت عطا فرما۔ (بخاری،  کتاب فضائل المدینۃ،  باب کراھیۃ النبی ۔۔۔الخ،  ج۱،  ص۶۲۲،  حدیث:۱۸۹۰) اورآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ دونوں دُعائیں مَقْبول ہوئیں۔ اللہ  پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔اٰمِیْن بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

شہادت اے خدا عطاؔر کو دیدے مدینے میں
کرم فرما اِلٰہی! واسطہ فاروقِ اعظم کا

                                                                                                                                                                        (وسائلِ بخشش، ص527)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

فاروقِ اعظم اور اِتّباعِ رسول

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! اگر کوئی کسی سے مَحَبَّت کا دَم بھرتاہے تواس جیسا بننے، اس کی اَداؤں کو اَپنانے اور اس کی پیروی میں ہی ساری زِنْدگی گُزارنے کی کوشش کرتاہے ۔اَمِیْرُالْمُؤمنین حضرت سَیِّدُنا عُمر فارُوقِ اَعْظمرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کےعشقِ رسول  کا اَنْدازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  ہرمُعامَلے میں دو عالَم کےآقا، مکی مَدَنی مُصْطفےٰ، حبیبِ کبریاصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی اِتّباع (پیروی )کرتے تھے۔چُنانچہ

بڑھی ہوئی آ ستینوں کو چُھری سے کاٹ لیا:

حضرت سَیِّدُنا عبدُ اللہبن عُمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ اَمِیْرُ الْمُؤمنین حضرت سَیِّدُنا عُمر فارُوقِ اعظمرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نئی قمیص پہنی تو چُھری منگوائی اور فرمایا:’’اے بیٹے ! اس کی لمبی آستینوں کو سِرے سے پکڑ کر کھینچو اورجہاں تک میری اُنگلیاں ہیں، ان کے آگے سے کپڑا کاٹ دو۔‘‘ سَیِّدُنا عبدُ اللہبن عُمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں کہ میں نے اسے کاٹا تو وہ بالکل سیدھا نہیں بلکہ اُوپر نیچے سے کَٹا۔ میں نے عرض کیا:’’ابا جان! اگر اسے قینچی سے کاٹا جاتا تو بہتر رہتا؟‘‘آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: ’’بیٹا! اسے ایسے ہی رہنے دو کیونکہ میں نے شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن، اَنِیْسُ الْغَرِیْبِیْنصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایسے ہی کاٹتے دیکھا تھا۔اس لیے میں نے بھی چُھری سے آستینیں کاٹ دیں۔‘‘اَمِیْرُ الْمُؤمنین حضرت سیِّدُنا عُمر فارُوقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے آستین کاٹنے کے بعد کُرتے کی حالت یہ تھی کہ اس سے بعض دھاگے باہر نکل نکل کر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قَدموں کے بوسے لیتے