Book Name:Musibaton Pr Sabr ka Zehen kese Bane

کیا بلکہ اس اونٹ والے سے کہا:نیچے اُترو ہمارے ہاں کچھ مہمان آئے ہیں ان کی مہمان نوازی کا اہتمام کرو ،وہ سامنے مینڈھا بندھا ہوا ہے اسے ذبح کر کے مہمانوں کو پیش کرو،چنانچہ

 مینڈھا ذبح کیاگیا اور اس کے گو شت سے ہماری دعوت کی گئی۔ہم کھانا کھاتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ یہ عورت کتنی صبر والی ہے کہ جوان بیٹے کی موت پر کسی طر ح کا غیر شرعی کام نہ کیا او ر نہ ہی کسی قسم کا شور شرابہ کیا۔جب ہم کھانا چکے تو صابرہ خاتون نے کہا:تم میں سے کوئی شخص مجھے اللہ  پاک کی کتاب میں سے کچھ آیات سُنا کر مجھ پر احسان کرےگا؟میں نے کہا: ہاں! میں تمہیں قرآنی آیات سناتا ہوں۔صابرہ خاتون نے کہا: مجھے کچھ ایسی آیات سناؤ جن سے صبر و شکر کی دولت نصیب ہو۔ میں نے سورۂ بقرہ کی درج ذیل آیاتِ بینات کی تلاوت کی:

وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵) الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶)  (پ۲،البقرۃ:۱۵۵،۱۵۶)

تَرْجَمَۂ کنز الایمان:اورخوشخبری سُنا ان صبروالوں کو کہ جب ان پرکوئی مصیبت پڑے توکہیں ہم اللہ کے مال ہیں اورہم کواسی کی طرف پھرنا۔

خاتو ن نے یہ آیاتِ قرآنیہ سُنیں تو کہا:جو تم نے پڑھا کیا قرآن میں بالکل اسی طرح ہے ؟میں نے کہا : ہاں!خدا پاک کی قسم!قرآن میں اسی طر ح ہے۔صابِرہ خاتون نے کہا:تم پر سلامتی ہو،اللہ  پاک تمہیں خوش رکھے۔پھر اس نے نماز پڑھی اور کہا: اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ بے شک میرا بیٹا عقیل اللہ کریم کی بارگاہ میں پہنچ گیا ہوگا،تین(3)مرتبہ اس نے یہی کلمات کہے پھر اس طرح درخواست گزار ہوئی:اے میرے پاک پروردگار!جیسا تو نے حکم دیا میں نے ویسا ہی کیا اب تو بھی اپنے اس وعدے کو پورا فرما دے جو تو نے کیا ہے،بے شک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔(عیون الحکایات،ص ۳۰۳)

سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ!سنا آپ نے!پہلے کے مسلمانوں کا مصیبتوں اور آزمائشوں پر صبرکے معاملے میں کس قدر زبردست مدنی ذہن بنا ہو اتھا،جو حالتِ جوانی میں اولاد کی فوتگی جیسے غمناک موقع  پر بھی بے صبری،نوحہ، چیخ وپکار اور کوئی بھی غیر شرعی کام کرنے کے بجائے رضائے الٰہی پر راضی رہتے تھے۔انہیں اس بات کا پختہ ہوتا یقین تھا کہ اولاد اللہ  پاک کی اَمانت ہوتی ہے، اگر اس نے اپنی امانت واپس لے لی  ہےتو اس پر بے صبری کا مظاہرہ یا چیخ و پکارکرنے کے بجائے دل  وجان سے اس کے فیصلے کو تسلیم کرلینا چاہئے۔مگر افسوس!علمِ دین سے دوری کے باعث اب ہمارے معاشرے میں اس طرح کی مدنی سوچ رکھنے  والوں کا شدید فقدان نظر آتا ہے اور ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی اعتبار سے بے صبری میں مبتلا دکھائی دیتاہے،مثلاً٭کسی کا قریبی عزیز یا بچہ فوت ہوگیا تو بے صبری،٭آپریشن (Operation) کروایا مگر ناکام ہوگیا تو بے صبری،٭بیماری آگئی تو بے صبری،٭کسی کی کوئی چیز گم ہوگئی توبے صبری، ٭بجلی چلی گئی تو بے صبری،٭پانی بند ہوگیا تو بے صبری،٭جنریٹر خراب ہوگیا تو بے صبری ،٭تنخواہ یاکمیٹی ملنے میں تاخیرہوگئی توبے صبری،٭ٹریفک جام ہوگیا تو بے صبری،٭گاڑی پنکچر ہوگئی تو بے صبری،٭کھانے وغیرہ میں نمک،مِرچ کم یا