Book Name:Hirs kay Nuqsanaat or Qana_at ki Barkaat

ریکارڈ کروں گی نہ ہی اور کسی قسم کی آواز  کہ  اِس کی اجازت نہیں ،جو کچھ سنوں گی، اسے سن   اور سمجھ   کر اس پہ عمل کرنے اور اسے بعد میں دوسروں تک پہنچا   کر نیکی کی دعوت عام کرنے کی سعادت حاصل کروں گی۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! قَناعت اعلیٰ ترین انسانی صفات میں سے ایک بہترین صفت ہے، قناعت کرنے والا اپنی خواہشات کوروکنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ حرص و لالچ رکھنے  والا نفس کا غلام بن کر ہمیشہ اِدھر اُدھر بھٹکتا رہتا ہے۔ قناعت کرنے والے کو اللہ پاک کا شکر بجا لانے کی توفیق ملتی ہے جبکہ حریص آدمی کی کوئی  خواہش پوری نہ ہوتو وہ شکوہ شکایت پر اُتر آتا ہے۔ قناعت انسان کی بُلند ہمتی، اعلیٰ سوچ، بُزرگی،تقویٰ اور صبر کی علامت بنتی ہے جبکہ خواہشات کی پیروی انسان کوحرص و بخل کی آفت میں مبتلا کر کے اِنْفاق فِیْ سَبِیْلِ اللہ یعنی راہِ خدامیں خرچ کرنےسے دُوری کا سبب بنتی ہے۔آج کے بیان  میں ہم حرص کے نقصانات  اورقناعت کی برکتوں کے بارے میں سنیں گی  ،آئیے! پہلے حرص کی تباہ کاری سے متعلق ایک حکایت  سنتی ہیں ،چنانچہ حرْص کی تباہ کاریاں

دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃ المدینہ کی کتاب”عُیونُ الحکایات“ جلد2صفحہ نمبر396پر ایک دِلْچَسْپ و سَبَق آموز حکایت موجودہے کہ کسی گھر میں ایک عجیب و غریب سانپ رہا کرتا تھا جو روزانہ سونے کا ایک انڈہدیتاتھا ۔گھر کا مالک مُفت کی دَولت ملنے پر بہت  خُوش تھا۔اُس نے گھر والوں کو تاکید کررکھی تھی کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتائیں۔کئی ماہ تک یہ سِلْسِلہ یونہی چلتا رہا۔ایک دن سانپ اپنے بِل سے نِکلا اور اُس نے اُن کی بکری کو ڈَس لِیا۔اُس کا زَہْر ایسا  خطرناک تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے بکری کی مَوْت واقع ہوگئی۔یہ دیکھ کر اُس کے گھر والے گھبرا گئے مگر اُس شخص نے یہ کہہ کر اُنہیں تسلّی دی کہ ہمیں سانپ سے ملنے والا نفع بکری کی قیمت سے کہیں زِیادہ ہے لہٰذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔کچھ عرصے بعد  سانپ نے اُن کے  گدھے کو ڈَس لِیا جو فوراً مرگیا۔اب تو وہ شخص بھی گھبرا گیا مگر لالچ کے مارے اُس نے فوراً خُود پر قابو پایا اور کہنے لگا:میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ سانپ ہمیں مُسلسل نُقْصان پہنچا رہا ہے مگر جب تک یہ نُقْصان جانوروں تک مَحْدُود ہے میں صبر کروں گا اِس کے بعد نہیں ۔پھر دو (2)سال کا عرصہ گُزرگیا مگر  سانپ نے کسی کو نہیں ڈَسا،اَہْلِ خانہ بھی اپنے جانوروں کے نُقْصان کو بُھول گئے۔پھر ایک دن  سانپ نے  اُن کے غُلام کو ڈَس لِیا۔ اُس بے چارے نے مَدَد کے لئے اپنے مالک کو پُکارا مگر اِس سے پہلے کے مالک  اُس تک پہنچتا،زَہْر کی وجہ سے غُلام کا جِسْم پَھٹ چُکا تھا۔اب وہی شخص پریشان ہوکر کہنے لگا: اُس  سانپ کا زہر تو بہت  خطرناک ہے، اُس نے جس جس کو ڈَسا وہ فوراً مَوْت کے گھاٹ اُتر گیا،اب کہیں یہ میرے گھر والوں میں سے کسی کو نہ ڈَس لے۔کئی دن اِسی پریشانی میں گُزر گئے کہ  اُس  سانپ کا کیا کِیا جائے؟دَولت کی حرْص نے ایک بار پھر اُس شخص کی آنکھوں پر پَٹّی باندھ دی اور اُس نے یہ کہہ کر اپنے گھر والوں کو مُطْمَئِن کردِیا کہ اگرچہ  اُس سانپ کی وجہ سے ہمیں نُقْصان ہورہا ہے مگر سونے کے انڈے بھی تو ملتے ہیں لہٰذا ہمیں زیادہ پریشان نہیں ہونا