Book Name:Hirs kay Nuqsanaat or Qana_at ki Barkaat

ہوگئی تو حرصِ مال  کی آفت  سے  خُود بخُود نجات حاصِل ہوجائے گی ۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                                                                                صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مہمان نوازی کی سُنتیں و آداب

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! آئیے!شیخِ طریقت،امیرِاہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رسالے ’’قبر کا امتحان‘‘سےمہمان نوازی کے متعلق مدنی پھول سنتی ہیں ۔پہلےدو (2)فرامینِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَمُلاحظہ ہوں:(1)ارشاد فرمایا:جواللہ پاک اورقِیامت پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ مہمان کا احترام کرے۔(بُخاری،۴/۱۰۵، حدیث:۶۰۱۸)حکیمُ الْاُمَّت،حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس حدیثِ پاک کے تَحْت فرماتے ہیں:مِہمان کا اِحترام یہ ہے کہ اس سے خندہ پیشانی سے ملے،اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا اِنتِظام کرے حتَّی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(مرآۃ المناجیح،۶/۵۲) (2)ارشاد فرمایا:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحِبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کَنْزُ الْعُمّال،۹/۱۰۷، حدیث:۲۵۸۳۱)

٭جب آپ کسی کے پاس بطورِ مہمان جائیں تو مُناسب ہے کہ اچّھی اچھّی نیّتوں کے ساتھ حسبِ حیثیت میزبان یا  اُس کے بچّوں کے لئے تحفے لیتے جائیے۔ ٭صَدرُ الشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ  حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:مہمان کو چار باتیں ضَروری ہیں:(۱)جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے(۲)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو،یہ نہ ہو کہ کہنے لگے:اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ(۳)بِغیر اجازتِ صاحِبِ خانہ(یعنی میزبان سے اجازت لئے بِغیر)وہاں سے نہ اُٹھے اور(۴)جب وہاں سے جائے تو اس کے لئے دُعا کرے۔ (عالمگیری، ۵/۳۴۴)٭گھر یا کھانے وغیرہ کے مُعامَلات میں کسی قسم کی تنقیدکرے نہ ہی جھوٹی تعریف۔میزبان بھی مہمان کو جھوٹ کے خطرے میں ڈالنے والے سُوالات نہ کرے مَثَلاً کہنا ہمارا کھانا کیسا تھا؟آپ کو پسند آیا یا نہیں؟ایسے موقع  پر اگر نہ پسند ہونے کے باوُجُود مِہمان مُرَوَّت میں کھانے کی جھوٹی تعریف کرے گا تو گنہگار ہوگا۔ اِس طرح  کا سُوال بھی نہ کرے کہ’’آپ نے پیٹ بھر کر کھایا یا نہیں؟‘‘ کہ یہاں بھی جواباً جھوٹ کا اندیشہ ہے کہ عادتِ کم خوری یا پرہیزی یا کسی بھی مجبوری کے تحت کم کھانے کے باوُجُود  اصرار و تکرار سے بچنے کیلئے مِہمان کو کہنا پڑجائے کہ’’ میں نے خوب ڈٹ کر کھایا ہے۔ میزبان کو چاہئے کہ مہمان سے وقتاً فوقتاً کہے کہ’’اور کھاؤ ‘‘مگر اس پر اِصرار نہ کرے، کہ کہیں اِصرار کی وجہ سے زیادہ نہ کھا جائے اور یہ اس کے لئے نقصان دہ ہو۔ (عالمگیری،  ۵/۳۴۴)٭حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:ساتھی کم کھاتا ہو تو اُس سے ترغیباً کہے:کھایئے!لیکن تین بار سے زیادہ نہ کہا جائے کیونکہ یہ’’اصرار‘‘ کرنا اور حد سے بڑھنا ہوا۔(اِحیاء  العلوم،۲/۹)٭میزبان کو بالکل خاموش نہ رہنا چاہئے اور یہ بھی نہ کرنا چاہئے کہ کھانا رکھ کر غائب ہوجائے بلکہ