Book Name:Bap Jannat ka Darmyani Darwaza ha

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عموماً ہر باپ کی یہ دِلی خواہش ہوتی ہے کہ’’میری اولاد میری فرمانبرداررہے، میرے ساتھ اچھا سلوک کرے، نیک،متقی و پرہیز گاربنے،مُعاشرےمیں عزّت داراورپاکیزہ کردار والی ہو“ مگراکثر نتیجہ اس کے اُلٹ ہی آتا ہے۔کیوں؟اس لئے کہ جو باپ تربیتِ اولاد کے بنیادی اسلامی اُصولوں سے ہی ناواقف،بے عمل اور اچھے ماحول کی برکتوں سے محروم ہو گا تو بھلا وہ کیونکر اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرپائے گا؟۔شاید اسی وجہ سے آج اولاد کی تربیت کا معیار یہ بن چکا ہے کہ بچہ اگر کام کاج نہ کرے،اسکول ،کوچنگ سینٹر، ٹیوشن یا اکیڈمی سے چھٹی کرلے یا اس معاملے میں سُستی کا شکار ہو،کسی تقریب میں جانے کا یا مخصوص لباس و جوتے پہننے کا کہا جائے اور وہ اس پر راضی نہ ہو،اسی طرح دیگر دنیوی معاملات میں وہ” اگر مگر“ اور” چونکہ چنانچہ“ سے کام لے یا ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے تو  اس کاٹھیک ٹھاک  نوٹس لیا جاتا ہے،کھری کھری سُنائی جاتی ہے،گھنٹوں  ليكچردئیے جاتے ہیں،حتّٰی کہ مارپیٹ  سے بھی گُریز نہیں کیا جاتا، لیکن اگر وہی بچہ نمازیں قضا کرے یا جماعت سے نماز نہ پڑھے،مدرسے یا جامعہ کی چھٹی کرلے یا تاخیر سے جائے،پوری پوری رات آوارہ گردی کرے،موبائل اور سوشل میڈیا(Social Media)کے ذریعےنا محرموں سے ناجائز تعلقات قائم کرے،موبائل یا نیٹ کاغلط استعمال کرے،عشقِ مجازی کی آفت میں گرفتار ہوجائے، فلمیں ڈرامے دیکھے،گانے باجے سُنے،نت نئے فیشن اپنائے،حرام و حلال کی پروا نہ کرے،شراب پئے،جُوا کھیلے، جھوٹ بولے،غیبتیں کرے،رشوتوں کا لین دین کرے،ناجائز فیشن اپنائے،بد عقیدہ لوگوں کی صحبت میں بیٹھے،فُضول کاموں میں پیسہ برباد کرے ،الغرض طرح طرح کی بُرائیوں میں مُبْتَلا  ہوجائے مگران مُعاملات میں اس سے پوچھ گچھ کرنا تو دُور کی بات ہے باپ کی پیشانی پر بَل تک نہیں آتا،یہ