Book Name:Aey Kash Fuzol Goi Ki Adat Nikal Jay

فُضُول گفتگوسے بچنے والے بن جائیں گے کیونکہ جسے کوئی دُنیاوی فکرلاحق ہوتی ہے تو وہ اس کے بارے میں سوچتا رہتا ہے، مثلاً  کسی کے ماں باپ  یا رشتہ دار کا اچانک انتقال (Death) ہوجائے ،یا چلتا ہوا کاروبار اچانک  کسی حادثے کا شکار ہوجائے یا بند ہو جائے ، بات بات پر گھریلوجھگڑے شروع ہوجائیں  تو بندے پرخاموشی طاری ہوجاتی ہے ،اسی طرح اگر ہمیں  جہنم کے عذابات   کا تذکرہ سن کر فکرِ آخرت نصیب ہوجائے، خوفِ خدا سے ہمارا  دل لرزجائے  تو اِنْ شَآءَاللہعَزَّ  وَجَلَّ  ہمارے لبوں پر  بھی خاموشی طاری ہوجائے گی ۔ مگر ہم تو کسی پل خاموش نہیں رہتے ،ہروقت بغیر سوچے سمجھے  بولے چلے جاتے ہیں ۔ اگر ہم اپنےپیارے آقا،مدنی مصطفےٰصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ  کا مطالعہ کریں تو  معلوم ہوگا کہ ہمارے پیارے آقا،حبیبِ کبریا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت   کم گفتگو فرمایا کرتے تھے،اکثر خاموش رہا کرتے  تھےجیساکہ حضرت سیِّدُنا جابر بن سَمُرَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولِ پاک،صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  بہت زیادہ خاموش رہا کرتے تھے۔(مسندامام احمد،مسندالبصریین،حدیث جابربن سمرۃ،۷/ ۴۰۴، حدیث:۲۰۸۳۶ملتقطا)

حکیمُ الامت حضرت مُفتی احمدیارخان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: خاموشی سے مُراد دُنیاوی کلام سے خاموشی(ہے) ورنہ حضورِ اقدس (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کی زبان شریف اللہ(پاک)کے ذِکرمیں تررہتی تھی،لوگوں سے بِلاضرورت کلام نہیں فرماتے تھے،یہ ذِکر ہے جائزکلام کا،ناجائزکلام توعُمْر بھر زبان شریف پرآیاہی نہیں۔حُضُور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ )سراپا حق ہیں،   پھر آپ تک باطل کی رسائی کیسے ہو۔(مرآۃ المناجیح،۸/۸۱)

سیدی اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نبیِ رحمت،شفیعِ اُمّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی زبانِ