Book Name:Aey Kash Fuzol Goi Ki Adat Nikal Jay

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!دیکھا آپ نے کہ  ہمارے پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے  سلامت رہنے کا کتنا پیارا نسخہ اِرشاد فرمایا کہ  سلامتی اسی میں ہے کہ  بندہ  اپنی زبان سے اچھی بات نکالے اور  بُری باتوں سے بچتا رہے۔یادرکھئے !  زبان کا قُفلِ مدینہ لگانے اور فُضُول گفتگو کی آفات سے بچنے میں  ہم اسی وقت کامیاب  ہوسکیں  گے جب ہمیں  معلوم  ہوکہ فضول گفتگو کہتے کسے ہیں۔چنانچہ  اس بارے میں

حضرتسَیِّدُنا امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:بے فائدہ گفتگو کی تعریف (Definition) یہ ہے کہ تمہارا ایسا کلام كرنا کہ اگر اس سے رُک جاتے تو گناہ گار نہ ہو تے اور نہ ہی فی الحال یا آئندہ کوئی نقصان ہوتا۔مثلاً تم کسی مجلس میں لوگوں کے سامنے اپنے سفر کا ذکر کرو اور اس میں جو پہاڑ اورنہریں دیکھیں اورجوواقعات تمہارےساتھ پیش آئے انہیں بیان کرو،اسی طرح  جو کھانے اور کپڑے تمہیں اچھے لگے انہیں اورمختلف شہروں کے مشائخ کی تعجب خیز باتیں اور ان کے تعجب انگیز واقعات ذکر کرو۔تو یہ وہ امور ہیں کہ اگر تم انہیں بیان نہ بھی کرتے تب بھی گنہگار نہ ہوتے اور نہ ہی کوئی نقصان اُٹھاتے۔ پھراگرچہ تم  اس بات کی بھر پور کوشش کرو کہ واقعہ  بیان کرنے میں کوئی کمی بیشی نہ ہو جا ئے اور نہ  اس میں کسی کی غیبت اور نہ مخلوقِ خُدا کی مَذمَّت  ہو،ان ساری احتیاطوں کے باوجود بھی تم اپناوقت برباد کرنے والے ہوگےاور فضول گفتگو کی  آفات سے کیسے بچ سکو گے۔(احیاء العلوم،۳/۳۴۵ ،ملتقطاً)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! سُنا آپ نے کہ بے فائدہ کلام سے مُراد یہ ہے کہ جس  کے نہ کرنے سے کوئی نقصان نہ ہو ،بس ہمیں  بات کرنے سے پہلے اس کے نتیجے پر غور کرلینا چاہیے  کہ اس سے میری آخرت کا کوئی فائدہ  ہے  یانہیں؟ اگر فائدہ ہوتو کی  جائے ورنہ خاموشی اختیار کی جائے۔ ہمارے ذہنوں  میں اگر   فضول  اور بے ہودہ گفتگو کے سبب بروزِ محشر  رُسوائی کا تصور ہوگا تو ہم کم گفتگو کرنے والے اور