Book Name:Nigahon ke Hifazat kijiye

فرماتے ہیں:پہلی نِگاہ سے مُراد وہ نِگاہ ہے جو بغیر قَصْد(یعنی ارادے کے بغیر)اَجنبی عَورَت پر پڑ جائے اور دوسری نِگاہ سے مراد دوبارہ اسے قَصْداً (جان بوجھ کر)دیکھنا ہے۔اگر پہلی نظر بھی جَمائے رکھی توبھی دوسری نِگاہ کے حکم میں ہوگی اور اس پر بھی گناہ ہوگا۔(مرآة المناجیح،۱۷/۵)

عورت کی طرف نظر کرنے کا حکم

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی کتاب”پردے کے بارے میں سوال جواب “صَفْحَہ نمبر30پر شیخِ طریقت، امیر اہلسنت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  مرد کے غیر عورت کے چہرے کو دیکھنے یا نہ دیکھنے کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کچھ یوں تحریر فرماتے ہیں:(مرد اجنبی عورت کا چہرہ)نہ دیکھے۔ البتّہ ضَرورتاً بعض قُیودات کے ساتھ دیکھ سکتا ہے ۔اِس کی بعض صورَتیں بیان کرتے ہوئے صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرت علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے کا حکم یہ ہے کہ(ضَرورت کے وقت) اُس کے چہرے اور ہتھیلی کی طرف نظر کرنا جائز ہے کیونکہ اس کی ضَرورت پڑتی ہے کہ کبھی اس کے مُوافِق یا مخالِف شہادت(گواہی)دینی ہوتی ہے یا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اگر اسے نہ دیکھا ہو تو کیونکر گواہی دے سکتا ہے کہ اس نے ایسا کیا ہے۔ اس کی طرف دیکھنے میں بھی وُہی شرط ہے کہ شَہوت کا اندیشہ نہ ہو اور یوں بھی ضَرورت ہے کہ(آج کل گلیوں بازاروں میں) بَہُت سی عورَتیں گھر سے باہَر آتی جاتی ہیں لہٰذا اس سے بچنا بھی دشوار ہے ۔ بعض عُلَما نے قدم کی طرف بھی نظر کو جائز کہا ہے۔مزید فرماتے ہیں:اَجْنَبِيَّہ عورت کے چہرہ کی طرف اگرچِہ نظر جائز ہے جب کہ شَہوت کا اندیشہ نہ ہو مگر یہ زمانہ فتنے کا ہے اِس زمانے میں ایسے لوگ کہاں جیسے اگلے زمانے میں تھے لہٰذا اِ س زمانے میں اس کو(یعنی چہرے کو) دیکھنے کی مُمانَعَت کی جائے گی مگر گواہ و قاضی کے لیے کہ بوجہِ ضَرورت ان کے لیے نظر کرنا جائز ہے۔(پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۳۰)

یاد رہے!ایک مسلمان کے لئے اس بات کا علم حاصل کرنا  ضروری ہے کہ اسلام نے اس کو کن