Book Name:Auliya-e-Kiram Ke Barkatain

بالوں والےاور پَھٹے پُرانے کپڑوں والے ہیں،جِن کی  کوئی پَرْوا نہیں کی جاتی۔یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر بادشاہوں کے پاس جانا چاہیں تو اُنہیں اِجازت نہ ملے،عَوْرَتوں کو نِکاح کا پَیْغام دیں تو اِنکار کر دِیاجائے، جب بات کریں تو اُن کی بات سُنی نہ جائے،اُن کی ضَرُورِیَّات اُن کے سِینوں میں  ہَلْچَل مَچا رہی ہوتی ہیں،یہ ایسے جنّتی ہیں کہ  بروزِقِیامت اُن میں سے ایک کا نُور بھی تمام لوگوں پر تقسیم کر دیا جائے تو تمام کوپُورا ہوجائے۔(شعب الایمان، باب فی الزھد وقصر الامل ،۷/ ۳۳۲، حدیث: ۱۰۴۸۶)ایک اور مَقام پر اِرْشاد فرمایا:بہت سے پراگندہ بال (بِکھرے بالوں والے)دروازوں سے نکالے ہوئے،اگر اللہ پاک کی قَسم کھالیں تو وہ اُسے پُوری فرمادیتا ہے ۔(مسلم،کتاب البرو الصلۃ،باب فضل الضعفاء،ص۱۰۸۳،حدیث: ۲۶۲۲)

مُفتی اَحمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ(حدیثِ پاک کے اِس حصّے ”بہت سے پراگندہ بال(بِکھرے بالوں والے) دروازوں سے نکالے ہوئے“کی شَرح کرتے ہوئے)فرماتے ہیں:اِس فرمانِ عالی کا مَطْلَب یہ نہیں کہ وہ دُنیا داروں کے دروازوں پر جاتے ہیں(اور) وہاں سے نکالے جاتے ہیں،وہ تو ربّ کے دروازے کے سِوا (عِلاوہ) کسی کے دروازے پر نہیں جاتے،بلکہ مَطْلَب یہ ہے کہ اُن کی حقیقت سے دُنیا غافِل ہے،اگر وہ کسی کے پاس جاتے تو وہ اُن سے مِلنا گَوارہ نہ کرتا،ربّ نے اُنہیں دُنیا والوں سے ایسا چُھپایا ہُوا ہے جیسے لَعْل(سُرخ رنگ کا ہیرا) پہاڑ میں یا موتی سَمُنْدَر میں تاکہ لوگ اُن کا وَقْت ضائع نہ کریں۔(حدیثِ پاک کے اِس حصّےاگر اللہ پاک کی قَسم کھالیں تو وہ اُسے پُوری فرمادیتا ہے“)کے دو مَطْلَب ہوسکتے ہیں:ایک یہ کہ وہ بندہ اگر اللہکریم کو قَسم دے کر کوئی چیز مانگے کہ خدایا! تجھے قَسم ہے اپنی عِزَّت و جَلال کی!یہ کردے! تو ربّ ضرور کردے۔یہ ہے بندے کی ضد اپنے ربّ پر۔دوسرے یہ کہ اگر وہ بندہ خدا کے کام پر قسم کھا کر لوگوں کو خَبَر دے دے تو خُدا اُس کی قَسم پُوری کردےمَثَلاً وہ کہہ دے کہ خداکی قَسم!تیرے بیٹا ہوگا یا،ربّ کی قسم!آج بارِش ہوگی تو ربّ اُن کی زبان سچّی کرنے کے لئے یہ کردے۔(مرآۃ المناجیح، ۷/۵۸بتغیر)