Book Name:Ala Hazrat Ka Husn e Akhlaq

صفحہ 165 پر حُجَّۃُ  الْاِسْلَام  حضرتِ سَیِّدُنا امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : خُلُق (عادَت ) نَفْس میں رَاسِخْ(موجود) ایک ایسی کیفیت کانام ہے، جس کی وَجہ سے اَعْمال بآسانی صادِر ہوتے ہیں۔ ( اِنہیں عَمَلی جامہ پہنانے میں کسی)غور وفکر کی حاجت نہیں ہوتی۔اگر نَفْس میں مَوْجُود کَیْفِیَّت ایسی ہو کہ اُس کے باعث اَچّھے اَفْعال اس طرح اَدا ہوں کہ وہ عَقْلِی اور شَرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حُسنِ اَخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سے بُرے اَفْعَال اس طرح اَدا ہوں کہ وہ عَقْلِی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ ہوں تو اسے بَد اَخْلَاقی سمجھا جائے گا۔

اِس تعریف سے یہ مَعلُوم ہُوا کہ جوشخص کبھی کبھار کسی عارِضی حاجت یا وَقْتِی جوش و جَذبے کی وجہ سے کوئی اچھا عمل کرے مثلاً مال خرچ کرےیا غُصّہ آنے پر قابُو کرلے تویہ مُعاملات بھی اگرچہ قابلِ تعریف ہیں لیکن حقیقی سَخاوَت اورحقیقی بُردْباری اُسی وَقْت  نصیب ہوگی، جب یہ چیزیں طبیعت میں  داخل ہوجائیں گی۔

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! یاد رکھئے!حُسنِ اَخلاق یہ  نہیں کہ ہم  صرف    مالداروں یا بلند مراتب پر فائز لوگوں کے ساتھ میل جول رکھیں اورصرف اِنہی سے  خوش اخلاقی اور ملنساری سے پیش آئیں اور  جب کوئی  غریب ونادار،یا کم مرتبے  والاشخص ہم سے ملنا چاہےیا  کوئی بات کرنا چاہے   تو اس سے  منہ پھیر لیں  یا منہ بگاڑ کر بے توجہی سے اس کی بات سُنیں بلکہ حُسنِ اَخلاق تو یہ ہے کہ امیرہو یا غریب، سیٹھ ہو یا ملازم،نگران ہو یا ماتحت ہر ایک سے یکساں سلوک سے پیش آئیں اور ہر ایک کے ساتھ خوش اخلاقی کا برتاؤ کریں ، جس طرح مالداروں کو عزّت دی جاتی ہے ان کا احترام کیا جاتا ہے،ان کی دعوت قبول کر لی جاتی ہے،   غریبوں کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ہمارے اعلیٰ حضرت،امام اہلسنت  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے حُسنِ اَخلاق کایہ عالم تھا کہ اگر کوئی غریب اور نادار  شخص آپ کی دعوت(Invite)  کرتا تو