Book Name:Ala Hazrat Ka Husn e Akhlaq

مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ غُلام و مسکین سب کی دعوت قبول فرماتے تھے۔( احیاء العلوم ،۲/۴۵ بتغیر قلیل)

میں غریب بے سہارا کہاں اور ہے گزارہ           مجھے آپ ہی نبھانا مدنی مدینے والے

تِری سُنّتوں پہ چل کر مِری روح جب نکل کر       چلے تُو گلے لگانا مدنی مدینے والے

(وسائلِ بخشش مُرمّم،ص426)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                             صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمّد

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!  ہم  اعلیٰ حضرت،امام اہلسُنَّت  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے حُسنِ اَخلاق کے بارےمیں سُن  رہے ہیں۔ اگر کوئی آپ کے لئے نازیبا کلمات استعمال کرتا  تو آپ صبر وتحمل اور عفودر گزر  سے کام لیتے اور اپنی ذات کے لئے غُصہ کرنے اوراس سے  انتقام لینے  کے بجائے رضا ئےالٰہی  کے لئے انہیں معاف  (Forgive)فرمادیا کرتے تھے۔چنانچہ   

کسی کی مدح وذمّ کی پر وا نہیں

ایک مرتبہ گالیوں سے بھرا ہوا ایک خط(Letter) آیا ،پڑھنے والے نے چند سطریں پڑھ کرخط علیحدہ رکھتے ہوئے عرض کی:حضور! کسی بد مذہب نے اپنی دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔حلقۂ ا ِرادت میں شامل ہونے والے ایک نئے مُرید وہ خط اُٹھا کر پڑھنے لگے۔اتفاق کی بات تھی کہ بھیجنے والے کا جو نام اور پتہ لکھا تھا، وہ ان صاحب کے اَطراف کا تھا۔نئے مرید کو بہت زیادہ رنج ہوا۔ اس وقت تو خاموش رہے لیکن جب اعلیٰ حضرت مغرب کی نماز کے بعد دولت کَدہ کی طرف جانے لگے تو آپ کو روک کر عرض کیا:اس وقت جو خط میں نے پڑھاتھا کسی سنگدل (سخت دل)نے گالیاں لکھ کر بھیجی تھیں۔میری رائے ہے کہ ان پر مُقدَّمہ کیا جائے۔ ایسے لوگوں کو سزا دلوائی جائے تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا نمونہ بن