Book Name:Ilm-e-Deen Ki Fazilat Wa Ahmiyat

ہو کہ یہی وہ  علم ہے جس سے دنیا و آخرت دونوں سنورتی ہیں اور یہی علم ذریْعۂ نجات ہے اور اسی کی قرآن و حدیث میں تعریفیں آئی ہیں اور اسی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔(بہار شریعت ،۳/۶۱۸، ملخصاً) علم،انبیائےکرامعَلَیْہِمُ السَّلَامکی میراث ہے،علم قربتِ الٰہی کا راستہ ہے، علم ہدایت کا سرچشمہ ہے، علم گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے، علم خوفِ خدا کو بیدار کرنے کا عظیم نسخہ ہے،علم دنیا وآخرت میں عزت پانے کا سبب ہے،علم مُردہ دلوں کی حیات ہے، علم سلامتیِ ایمان کا مُحافظ ہے، علم مخلوقِ خدا کی مَحَبَّت پانے کا سبب ہے اَلْغَرَض! علم بے شمار خوبیوں کا جامع ہے، اس میں دین بھی ہے دنیا بھی، اس میں آرام بھی ہےاطمینان بھی،اس میں لذّت بھی ہے راحت بھی، لہٰذاعقل مند وہی ہے جو طلبِ  عِلْمِ دِیْن میں مشغول ہوکر نجاتِ آخرت کا سامان کر جائے۔افسوس کہ آج ہمارے دلوں سے عِلْمِ دِین  کی قدر ومنزلت ختم ہوچکی ہے، ہمارے معاشرے کی اکثریت نہ تو خود عِلْمِ دِین  سیکھنے کی طرف راغب ہوتی ہےاور نہ ہی اپنی اولادکوعِلْمِ دِین سکھاتی ہے۔ اپنے بچوں کے روشن مستقبل کیلئے خوب دنیاوی علوم وفنون تو سکھائے جاتے ہیں مگردینی تعلیم دلواکر اپنی اور اپنے بچوں کی آخرت  بہتر بنانے کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ بچہ اگر ذہین ہوتو اسے ڈاکٹر، انجینئر ، پروفیسر ، کمپیوٹر پروگرامر بنانے کی خواہشیں  انگڑائی لیتی ہیں اوراگر کُندذہن، شرارتی یا معذور ہوتو جان چھڑانے کے لئے اسے کسی دارُالعلوم یا جامعہ میں داخل کروادیا جاتا ہے۔جبکہ ہمارے اسلاف بچپن ہی سے اپنی اولاد کو عِلْمِ دِین سکھاتے یہاں تک کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی اپنی اولادکوعِلْمِ دِیْن کے زیور سےآراستہ کرتےکیونکہ وہ خود علم وعُلما کے قدر دان ہوا کرتے تھے۔ جیساکہ

 خلیفہ ہارون رشید بہت نیک اور علم کی قدر ومنزلت جاننے والے  بادشاہ تھے ایک بار(اپنے بیٹے) مامون رشید کی تعلیم کے لئے حضرتِ امام کسائی (رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ) سے عرض کی تو آپ نے فرمایا :”میں یہاں پڑھانے نہ آؤں گا ، شہزادہ میرے ہی مکان پر آجایا کرے۔“ہارون رشید نے عرض کی :”وہ وہیں