Book Name:Ilm-e-Deen Ki Fazilat Wa Ahmiyat

لیے تھوڑی سی محنت آخرت میں عالیشان مراتب پانے کا سبب ہے۔ یقیناً جَنَّت میں ملنے والی ابدی نعمتوں کے مقابلے میں اس دنیا میں ملنے والی  عارضی نعمتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، یوں ذہن بنایا جائے تو محنت و مشقت آسان ہوسکتی ہے اور اس کے بعد اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ  وَجَلَّ حصولِ عِلْمِ دِین  کا شوق مزید بڑھ جائے گا۔

دوسری رکاوٹ:

          ہمارے معاشرے کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں عِلْمِ دِین حاصل کرنے والے کو وہ مقام ومرتبہ نہیں دیا جاتا جس کا حقیقی طور پر وہ مستحق ہوتا ہے۔ یقیناً ایسا شخص جس کے لیے فِرِشتے اپنےپر بچھائیں اسے دنیا  میں کوئی حیثیت ہی نہ دی جائے تورنجیدہ ہوجاتا ہےاورشیطان اپنا وار کرتے ہوئے طالبِ علم دین  کو راہِ علم  ہٹاکر کسی اور راستےپر چلنے کی دعوت دیتا ہے، ایسے نازک وقت میں یاد رکھنا چاہیے کہ آخرت کی عزت کے مقابلے میں دنیا کی کوئی عزت نہیں ہےجو شخص دنیا کی عزت پانے کیلئے دینی تعلیم ترک کرتا ہے حقیقت میں وہ اپنے آپ کوذلت میں ڈالتا ہے اور جو علم کو دنىاوی عزت  پر ترجىح دىتا ہے  اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اُسے دنىامیں بھی سرخرو فرماتاہے ۔حضرت سیِّدُنا ابواسود رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کہتے ہىں:علم سے زیادہ کسى چىز کى عزت نہىں۔ بادشاہ سب لوگوں کے حاکم ہىں اور علما بادشاہوں کے بھی حاکم ہوا کرتے ہیں۔([1])

تیسری رکاوٹ: 

    بسا اوقات یہ خیال بھی طالبِ علم کو دینی تعلیم سے  راہِ فرار اختیار کرنے پر ابھارتا ہے کہ  دنیا میں آرام وآسائش اور سہولیات بھری زندگی گزارنے کیلئے مال و دولت کی اشدضرورت ہوتی ہے تو کیوں نہ ایسی راہ اختیار کی جائے جہاں سے پیسہ بھی جمع ہوسکے۔ اس بات کا جواب دیتے ہوئے رئیس المتکلمین حضرتِ مفتی نقی علی خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  ارشاد فرماتے ہیں: دولتِ فانی علمِ دین جیسی دولتِ باقی کے


 



[1]احیاءالعلوم، کتاب العلم، الباب الاول فی فضل العلمالخ، ۱/ ۲۲